اللہ تعالی نے اس کائنات میں بے شمار مخلوقات کو تخلیق کیا۔ ان میں اکثریت ان کی ہے جن کو کبھی ہم نے نہ دیکھا اور نہ ہی شاید سنا ہوگا لیکن انسان کو اشرف المخلوقات کے رتبے سے نوازا گیا اور اپنی مخلوق کے لیے اس دنیا کو دلکش نظاروں، بلندو بالا پہاڑوں، خوشبوؤں سے بھرے باغات، ہوشربا آبشاروں اور بدلتے موسموں سے سنوارا۔
ان تمام عطیات خداوندی سے لطف اندوز ہونے کے لیے آنکھیں ہی ایک سہارا ہیں جو زندگی کو پر لطف بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں اور اگر یہ نظارے آنکھوں سے اوجھل ہوں تو کیا زندگی میں کوئی رنگ ہوگا؟ یقیناً نہیں۔
لیکن کئی افراد ایسے بھی ہیں جو پیدائشی طور پر آنکھوں کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں جب کہ کچھ لوگ بیماری یا حادثے کی وجہ سے بینائی کھو دیتے ہیں، مگر یہ لوگ دل کی روشنی سے سب کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔
بصارت سے محروم وہ افراد جن کا تعلق معاشی طور پر خوشحال گھرانے سے ہو ان کی حالت تو بہتر ہوتی ہے لیکن وہ نابینا افراد جو غریب گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں وہ نہ صرف اس معاشرے کے لیے بوجھ تصور کیے جاتے ہیں بلکہ اپنے والدین کے لیے بھی بوجھ بن کر رہ جاتے ہیں۔ ان کا مستقبل سڑ کوں پر بھیک مانگتے اور دربدر کی ٹھوکریں کھاتے گزر جاتا ہے اور اس سے یہ لوگ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ایسے میں نابینا افراد کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کے لیے ملتان میں محمد بن قاسم بلائنڈ ویلفیئر کمپلیکس کے نام سے ایک ادارہ کام کر رہا ہے، جس کا باقاعدہ طور پر افتتاح 1981 میں ہوا اور اس کی بنیاد محمد قائم خان کرمانی نے رکھی۔ اس وقت محمد قائم خان کرمانی کی صاحبزادی سعدیہ کرمانی بطور ڈائریکٹر محمد بن قاسم بلائنڈ ویلفیئر کمپلیکس کو چلا رہی ہیں جہاں نابینا بچوں اور بچیوں کو دینی و دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر ہنر مثلاً کرسی بُننا، کتابوں کی جلد سازی، چارپائی بننا اور بچیوں کو آرٹ اینڈ کرافٹ جیسے ہنر سے آراستہ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔
ملتان کے نواحی علاقے کی فاطمہ نواز اس ویلفیئر کمپلیکس میں ایک سال سے ہیں، جہاں وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ سلائی کڑھائی بھی سیکھ رہی ہیں۔ فاطمہ نواز کے مطابق گھر میں تو انہیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ نابینا ہیں۔ گھر میں وہ ہر وہ کام کرتی ہیں جو ان کی باقی بہنیں کرتی ہیں تاہم گھر سے باہر کی جو دنیا ہے وہ نابینا افراد سے ہمدردی اور رحم تو کرتی ہے لیکن ان کی مدد نہیں کرتی۔ یہاں تک کہ اگر ایک نابینا سڑک کنارے روڈ پار کرنے کی غرض سے کھڑا ہو تو لوگ اسے دس روپے بھیک تو دیتے ہیں سڑک پار نہیں کرواتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: ’یہاں اس ادارے میں، میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ سلائی کڑھائی بھی سیکھ رہی ہوں۔ میں یہ سب کچھ اس لیے سیکھنا چاہتی ہوں تا کہ ہمیں یہ نہ لگے کہ ہم کسی سے کم ہیں۔ ادارے میں، میں نے بٹن لگانا، سوئی سے سلائی کرنا، مکرامہ، رِنگ بنانا اور نیٹ پیس بنانا سیکھا ہے۔ یہاں پر آ کر ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم بلائنڈ ہیں اور دیکھ نہیں سکتے۔‘
فاطمہ کے مطابق: ’ہم خود محسوس کرکے سوئی میں دھاگہ ڈالتی ہیں۔ شروع میں سوئی کئی بار چبھتی تھی لیکن اب نہیں چبھتی، احتیاط بھی کرتی ہیں تا کہ سوئی نہ چبھے اور جب ہم ایک نیٹ پیس بناتی ہیں تو اس میں بہت سے سوراخ ہوتے ہیں، ان سوراخوں کو محسوس کرکے انہیں بناتی ہیں اور رنگوں کا انتخاب بھی ہم آنکھوں اور دل کی روشنی سے کرتی ہیں۔ مطلب ایسے کہ جس طرح دیگر لوگ روشنی میں آنکھیں بند کرتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ جل رہا ہے یعنی روشنی ہے اور اگر لائٹ بند ہو تو اندھیرا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم آنکھوں کے سامنے رکھ کر رنگوں کو محسوس کرتی ہیں اور ٹیچرز سے بھی پوچھ لیتی ہیں۔ ریڈ، ڈارک براؤن ہو گا تو اندھیرے کی طرح فیل ہوگا اور اگر ہلکا رنگ ہو تو ہلکی سی روشنی کی مانند لگتا ہے۔‘
فاطمہ نواز کی طرح مظفر گڑھ کی عائشہ سمیت کئی لڑکیاں یہاں سلائی کڑھائی سیکھ رہی ہیں۔
محمد بن قاسم بلائنڈ ویلفیئر کمپلیکس کی ڈائریکٹر سعدیہ کرمانی کے مطابق ان کے ادارے میں 92 طلبہ ہیں، جو سب نابینا ہیں۔ یہ ادارہ خصوصی طور پر گذشتہ 40 سالوں سے بلائنڈ بچوں کے لیے کام کر رہا ہے۔ ادارے کی بنیاد بھی اس نظریے کی بنیاد پر رکھی گئی کہ نابینا افراد کو بھیک کی بجائے ایک روپیہ کمانا سکھایا جائے اور اس طرح یہاں نہ صرف جنرل ایجوکیشن پر کام ہوتا ہے بلکہ بچوں اور بچیوں کو ہنر سے بھی آراستہ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایک بچہ یا بچی جو نرسری میں یہاں آتا ہے، اس نے میٹرک تک یہ کام سیکھنا ہوتا ہے تاکہ اسے ملازمت ملے یا نہ ملے لیکن وہ اپنے ہنر کو بروئے کار لاتے ہوئے باعزت روزگار کمانے کے قابل ہو۔
سعدیہ کرمانی کے مطابق: ’ہمارے 60 کے قریب سٹوڈنٹس ایسے بھی ہیں جو پی پی ایس سی کے ذریعے حکومت پنجاب میں کام کر رہے ہیں اور آٹھ سے دس بچیاں ایسی ہیں جو آرٹ اینڈ کرافٹ کا کام کر رہی ہیں۔‘