پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں الحمرا آرٹس کونسل کے احاطے میں منعقدہ فیض میلے کے موقع پر ’جب لال لال لہرائے گا‘ کا مقبول ترین نعرہ گونجا، تو طلبہ کے اس جھرمٹ میں پرجوش نعرے لگوانے پر نمایاں ہونے والی عروج اورنگزیب تھیں، جن کی ویڈیو مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی، جس کا رنگ لاہور کے مال روڑ پر طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے ہونے والے یکجہتی مارچ میں بھی نظر آیا۔ عروج طلبہ کے حقوق کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہیں، چاہے اس کے لیے انہیں کچھ بھی برداشت کرنا پڑے۔
عروج اورنگزیب ایک نجی سکول میں پارٹ ٹائم بطور ٹیچر ملازمت کیا کرتی تھیں، جن کا کہنا ہے کہ سکول انتظامیہ نے انہیں کوئی وجہ بتائے بغیر نوکری سے نکال دیا، جس کا موجب وائرل ہونے والی ویڈیو نہیں بلکہ طلبہ کے حق مانگنے کی جدوجہد ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عروج اورنگزیب نے بتایا کہ وہ گریجویشن کے بعد سے ہی سکول میں پارٹ ٹائم ٹیچنگ کرتی رہی ہیں لیکن کچھ عرصہ پہلے انہیں نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ اس بارے میں تفصیل بتانے سے گریزاں ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ طلبہ کا حق مانگنا اتنا آسان نہیں۔ وہ اور ان کے ساتھی کئی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں مگر اس بارے میں بات اس لیے نہیں کرتے کہ ان کا اصل مقصد پیچھے چلا جائے گا۔
عروج کے مطابق وہ اور ان کے تمام ساتھی اس بات پر متفق ہیں کہ چاہے جتنی بھی مشکلات آئیں، اب اس ملک میں نوجوانوں کے مسائل حل کرکے انہیں بنیادی آزادیاں دینی ہی پڑیں گی، اسی لیے پاکستان کے ہر شہر میں طلبہ متحد ہو رہے ہیں۔
عروج اورنگزیب نے کہا کہ ’دنیا بھر میں طلبہ یونینز موجود ہیں، لیکن ہمارے یہاں یونیورسٹیوں، کالجوں میں طالبات کو ہراساں کیا جارہا ہے، پسماندہ علاقوں میں خواتین پر تعلیم کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں، بلوچستان میں یونیورسٹیوں کے گرلز ہاسٹلز خالی ہوتے جا رہے ہیں، تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کا استحصال کیا جارہا ہے یا ان کی آواز دبا کر ریموٹ کنٹرول نسل تیار کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مخالفت کرنے والوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اپنا حق مانگنے والے نوجوانوں کو ٹی وی کا ریموٹ مانگنے کی ضد کرنے والے بچے نہ سمجھا جائے۔ ابھی تو جدوجہد کا آغاز ہوا ہے تو ہر طرف مخالفت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ یہ ہماری کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘
دیگر طلبہ کو درپیش چیلنجز
پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم حسنین جمیل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب سے طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا گیا ہے، انہیں اور ان کے دوستوں کو یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔
حسنین جمیل کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کی ایم فل (پاکستان سٹڈیز) میں رجسٹریشن منسوخ کر دی جب کہ دیگر طلبہ کے خلاف بھی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق میں بھی تفصیلات پیش کی ہیں اور کمیٹی کو تمام مشکلات اور کارروائیوں سے آگاہ کر دیا ہے۔ طلبہ کو کافی مشکلات کا سامنا ہے لیکن کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
طلبہ یونیز کی بحالی اور آزادی اظہارِ رائے پر مشکلات کا سامنا کرنے والوں میں صرف عروج اورنگزیب اور حسنین جمیل ہی نہیں بلکہ کئی طلبہ کے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے اور پنجاب یونیورسٹی سے ریاست مخالف تقریر کرنے کے الزام میں حراست میں لیے گئے طالب علم عالمگیر وزیر جیسی دیگر کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جنہیں طلبہ کی آواز دبانے کی کوشش کہا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بین الاقوامی تعلیمی اداروں کی طرز پر طلبہ یونینز کی بحالی کا اعلان ضرور کیا ہے، سندھ حکومت نے بھی اس بارے میں قانون سازی کی یقین دہانی کرائی ہے مگر طلبہ کے مطابق ابھی تک جامع اور ٹھوس حکمت عملی دکھائی نہیں دیتی، لہذا جب تک انہیں جمہوری حق نہیں دیا جاتا، وہ جدوجہد جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہیں۔