صومالیہ میں ہفتے کو ایک کار بم دھماکے میں کم از کم 73 شہری ہلاک ہو گئے۔
صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں سکیورٹی چیک پوسٹ پر ہونے والے خوف ناک بم دھماکے میں 90 شہری زخمی بھی ہوئے۔
موغادیشو کے میئر عمر محمود نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں اکثر طالب علم تھے جو واپس یونیورسٹی جا رہے تھے۔
موغادیشو کے ایک ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد یوسف نے بتایا کہ ان کے ہسپتال اب تک 73 لاشیں لائی جا چکی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صومالیہ کے رکن اسمبلی عبدالرزاق محمود نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہلاکتوں کے تعداد 90 تک پہنچ سکتی ہے۔
پولیس کے مطابق، صبح رش کے اوقات میں ہونے والے دھماکے کا ہدف شہر میں واقع ایک ٹیکس وصولی مرکز تھا۔
حالیہ سالوں میں یہ شہر میں ہونے والا بدترین حملہ تھا اور جائے وقوعہ کی تصاویر میں تباہ حال گاڑیاں اور بکھری ہوئی لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں یونیورسٹی کے طلبا اور دو ترک باشندے شامل ہیں۔
ابھی تک کسی نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم القاعدہ سے جڑا عسکریت پسند گروپ الشباب ماضی میں ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔
کچھ سال قبل اس گروپ کو شہر سے باہر دھکیل دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود یہ گروپ ساحل سمندر پر واقع شہر کے ہوٹلوں اور چیک پوسٹوں کو متعدد بار ہدف بنا چکا ہے۔
الشباب پر الزام ہے کہ اس نے اکتوبر، 2017 میں ایک ٹرک بم دھماکے کے ذریعے موغادیشو میں 500 انسانی جانیں لے لی تھیں، تاہم گروپ نے کبھی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
اسی طرح رواں سال جولائی میں ایک خود کش بمبار نے موغادیشو کے میئر کے دفتر میں دھماکہ کرتے ہوئے میئر عبد الرحمٰن سمیت کم از کم چھ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ الشاب نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
© The Independent