’خالص گڑ کا رنگ پیلا اور ذائقہ میٹھا ہوتا ہے جب کہ ملاوٹ شدہ گڑ کا رنگ سفید اور ذائقہ ترش ہوتا ہے جو کہ مضرصحت ہوتا ہے۔‘
یہ کہنا ہے سعید خان کا، جو خیبر پختونخوا کے ضلع مرادن میں گنے کے کاشت کار ہیں۔
ان کے مطابق موسم سرما میں مقامی لوگ گڑ میں ڈرائی فروٹ ڈال کر مصالحہ دار گڑ بناتے ہیں اور اپنے عزیز واقارب کے لیے بطور تحفہ بھیج دیتے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں نومبر کے مہینے میں گڑ بنانے کے لیے گنے کی فصل کی کٹائی شروع ہوجاتی ہے اور یہ سیزن مارچ تک چلتا ہے۔ زیادہ تر کاشت کار اپنی فصل کو شوگر ملوں کو دینے کی بجائے گڑ بنانے میں استعمال کرتے ہیں، تاہم اگر مارکیٹ میں گڑ کا دام کم ہوجائے تو کاشت کار گنے کو شوگر ملوں کو بیچ دیتے ہیں۔
صوبے میں زیادہ تر گنا ضلع صوابی، مردان، چارسدہ اور نوشہرہ میں کاشت کیا جاتا ہے اور گڑ گانیوں کے ذریعے مقامی سطح پر گنے سے گڑ حاصل کیا جاتا ہے۔
مردان میں تحت بھائی کے علاقے فضل آباد میں کاشت کاری کرنے والے سعید خان نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ ’چونکہ اس علاقے میں پانی زیادہ ہے اس لیے اکثر کاشت کار گنے کی فصل کاشت کرتے ہیں۔ وہ فصل پکنے کے بعد گنے کو کاٹ کر گڑ گانی میں لے آتے ہیں اور اس سے رس نکال کر ابال لیتے ہیں جس سے خالص گڑ تیار ہوجاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں خالص گڑ تیار کیا جاتا ہے جس کا رنگ اصل حالت میں پیلا اور ذائقہ میٹھا ہوتا ہے جب کہ ملاوٹ شدہ گڑ، جس میں مختلف کیمیکلز ڈالے جاتے ہیں، کا رنگ سفید ہوتا ہے اور ذائقہ ترش ہوتا ہے۔ ایسا گڑ کچھ عرصے بعد خود بخود خراب ہوجاتا ہے جب کہ خالص گڑ کا سال بھر نہ رنگ بدلتا ہے اور نہ ہی ذائقہ۔
انہوں نے کہا کہ گڑ زیادہ تر دیہی علاقوں میں لوگ چائے میں میٹھے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جب کہ اسے دیگر ممالک جیسے افغانستان، ایران اور وسطی ایشیا بھی بھیجا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سعید خان نے بتایا کہ اس موسم میں مقامی لوگ گڑ گانیوں میں مصالحہ دار گڑ بھی تیار کرتے ہیں، جسے مختلف قسم کے میوہ جات ڈال کر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ گڑ اپنی لذت اورمٹھاس کی وجہ سے بہت مشہور ہے اور لوگ اسے اپنے دوستوں اوررشتہ داروں کو اندرون اور بیرون ملک بطور تحفہ بھی بھیجتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گنا نقد آور فصل ہے لیکن اس سال فصل کی کمی کی وجہ سے منڈیوں میں گڑ کی ڈیمانڈ زیادہ ہونے سے قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔
سعید خان نے بتایا کہ ایک جریب زمین کے گنے سے 15 سے 20 بوری گڑ تیار کیا جاتا ہے جسے مقامی سطح پر ’پور‘ کہا جاتا ہے اور ایک بوری یا پور کا وزن تقریباً 100 کلوگرام ہوتا ہے۔
خیبرپختونخوا کی انجمن کاشت کاران کے صوبائی صدر نعمت شاہ روغانی نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ موجودہ حکومت نے کاشت کاروں کے مطالبے پر ملک سے باہر گڑ لے جانے پر پابندی ختم کردی ہے جس سے قیمت میں اضافہ ہوا ہے لیکن اخراجات دن بدن بڑھتے جارہے ہیں، کھادوں پر سبسڈی ختم کردی گئی ہے، مزدوروں کے خرچے بھی بڑھ گئے ہیں جب کہ آبیانے پر25 فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔
نعمت شاہ روغانی کا کہنا تھا کہ اب بھی کاشت کار آسودہ حال نہیں ہیں لیکن گذشتہ سالوں کی نسبت اس سال کاشت کار نقصان میں نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ تین سالوں میں گڑ اور شوگر ملوں کی کم قیمت دینے کی وجہ سے کاشت کاروں نے گنے کی فصل کم کاشت کی جب کہ اس سال طوفان اور ژالہ باری سے بھی گنے کی فصل کو کافی نقصان ہوا ہے لیکن حکومت نے کاشت کاروں کی کوئی مدد نہیں کی۔ ’حکومت کی جانب سے زراعت کو کوئی توجہ نہیں دی جارہی حالانکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اورزراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔‘
گڑ میں ملاوٹ کی حوالے سے انہوں نے بتایا: ’ہم انجمن کاشت کاران اس کی سخت مذمت کرتے ہیں لیکن دو نمبر گڑ، جو چینی اور کیمیکل سے بنتا ہے، کی تیاری سے کاشت کاروں کا کوئی تعلق نہیں، بلکہ اس سے کاشت کاروں کا کافی نقصان اور بدنامی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم نے فوڈ اتھارٹی اور ذمہ دار افسران سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ ان جعل سازوں کو بے نقاب کیا جائے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ ’محکمہ فوڈ کو چاہیے کہ وہ گڑ منڈیوں کو چیک کرے کہ یہ ملاوٹی گڑ کہاں سے آتا ہے۔‘
سعید خان نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کا گڑ پوری دنیا میں مشہور ہے اور یہاں سے ہمارے پڑوسی ممالک افغانستان اور ایران کے علاوہ عرب ممالک اور وسطی ایشیا کو بھی براستہ افغانستان بھیجا جاتا ہے۔