زیادہ دن نہیں گزرے جب پاکستان کا آسٹریلیا کے خلاف برزبین اور انگلینڈ کا نیوزی لینڈ کے خلاف ماؤنٹ ماؤنگانوئی میں ایک ہی دن ٹیسٹ شروع ہوا۔ مشترک بات یہ تھی کہ دونوں جگہ مہمان ٹیم کو اننگز کی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان کے لیے یہ شکست کچھ غیر معمولی نہیں تھی کیونکہ پاکستان کا آسٹریلیا میں ریکارڈ بہت خراب ہے اس لیے تھوڑا بہت شور مچا اور پھر سب خاموش ہوگئے لیکن انگلینڈ کی شکست بہت غیر متوقع تھی کیونکہ انگلینڈ کا ریکارڈ نیوزی لینڈ میں بہت اچھا ہے۔
جب پاکستان دونوں ٹیسٹ ہارا تو سارے ناقدین نے توپوں کا رخ پاکستانی ٹیم کے کپتان اور کوچ کی طرف کردیا لیکن انگلینڈ کی ٹیم کے سب سے بڑے ناقد ناصر حسین نے کہا کہ ایک مہمان ٹیم کا کسی بھی ملک میں جاکر جیتنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
انگلینڈ سے سیریز جیتنے والی نیوزی لینڈ جب آسٹریلیا پہنچی تو کین ولیمسن کے ذہن میں آسٹریلیا کی مضبوط ٹیم کے ساتھ اپنی ٹیم کی قوت بھی تھی جس میں بی جے واٹلنگ اور مچل سانٹنر جیسے ٹیل اینڈرز سنچریاں بنارہے تھے اور نیل واگنر اور ساؤتھی بہت اچھی بولنگ کر رہے تھے. اطمینان یہ تھا کہ ان کی فارم بھی اچھی تھی اور راس ٹیلر اور لیتھم بھی سنچریاں بناچکے تھے۔
لیکن جب پرتھ میں ڈے نائٹ اور پِنک گیند سے پہلا ٹیسٹ شروع ہوا تو پتہ چلا کہ دورہ آسان نہیں ہے۔ ایک تو لابوشین کی بیٹنگ اور پھر سٹارک کی طوفانی بولنگ نے سب کچھ ملیا میٹ کردیا اور پہلے ہی ٹیسٹ میں آسٹریلین بولروں نے ایسا خوف طاری کیا کہ دونوں اننگز میں انگلینڈ کی ٹیم دو سو بھی نہ کرسکی۔ سچ تو یہ ہے کہ صرف دو ہفتے قبل پنک گیند سے پاکستان نے نیوزی لینڈ سے کہیں بہتر کارکردگی دکھائی تھی۔
ملبرن ٹیسٹ باکسنگ ڈے سے شروع ہوا تو امید تھی کہ یہاں بیٹنگ چل جائے گی لیکن پہلی اننگ میں آسٹریلیا کے 467 رنز کے جواب میں بیٹنگ پھر لڑکھڑا گئی۔ اس دفعہ پیٹ کمنز کی نپی تلی گیندیں کھیلنا امتحان بن گیا اور محض 148 رنز پر پوری ٹیم پویلین لوٹ گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری اننگز میں 487 کا پہاڑ جیسا ہدف اور پھر بیماریوں نے کئی کھلاڑیوں کو دبوچ لیا۔ ملبرن کی تپتی ہوئی دھوپ میں کپتان ولیمسن سمیت کئی کھلاڑی بیمار ہوگئے۔ بولٹ تو اتنے نحیف ہوئے کہ بیٹنگ بھی نہ کرسکے۔
دوسرے ٹیسٹ میں 247 رنز سے شکست تو ہوئی تاہم ٹوم بلنڈل نے کیریئر کی دوسری سنچری بناکر اپنے وجود کا احساس دلا دیا تاہم ٹریوس ہیڈ کو سنچری پر بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ ملا۔
ٹیم جب سڈنی پہنچی تو کپتان ولیمسن زکام کے باعث کمزور نظر آرہے تھے، گرمی کی شدت سے سب ہی بے حال تھے۔ دوسری طرف آسٹریلیا کے جنگلات میں لگی آگ سب کی گفتگو کا موضوع تھا۔ ٹیسٹ کے شروع میں ان فائر فائٹرز کو خراج عقیدت پیش کیا گیا جو آگ بجھاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دونوں ٹیموں نے سوگ میں سیاہ ربن باندھ کر یہ پنک میچ کھیلا۔
ٹوم لیتھم نے عارضی کپتانی سنبھالی تو عقب میں ٹوٹی پھوٹی ٹیم نظر آئی۔ بولٹ بھی نہیں تھے اور ساؤتھی بھی نہیں، واگنر بھی بجھے بجھے سے تھے۔ بس پھر کیا تھا آسٹریلیا کے مارنوس لابوشین نے دل کھول کر خبر لی اور ایک اور ڈبل سنچری بناکر آسٹریلیا کا اسکور 454 تک پہنچادیا۔ نیوزی لینڈ کی پہلی اننگز 256 تک ہی محدود رہی۔ ناتھن لیون سب سے کامیاب بولر رہے اور پانچ وکٹیں لے اڑے۔
نیوزی لینڈ کو دوسری اننگز میں سڈنی کی دھوپ میں چٹختی ہوئی پچ پر جیت کے لیے 415 رنز کا ہدف ملا۔ ایک ایسی وکٹ جس پر کئی جگہ پچ کی اوپری سطح ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، ناتھن لیون کے لیے آئیڈیل تھی۔ ان کی لیگ اسٹمپ کو اٹیک کرتی ہوئی آف سپن گیندیں ایک ایسی بیٹنگ لائن کے لیے بہت مشکل تھیں، جو پہلے ہی دو ٹیسٹ ہار چکی تھی۔
پوری ٹیم ٹیسٹ کے چوتھے دن ہی 136 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ گرینڈ ہوم نے کچھ مزاحمت کی ورنہ باقی تمام بلے باز تو بس گنتی پوری کر رہے تھے۔ ناتھن لیون نے اپنے کیریئر میں تیسری دفعہ میچ میں دس وکٹیں لے کر 96 ویں ٹیسٹ میں 390 وکٹیں لیں۔
279 رنز سے سڈنی ٹیسٹ کی شکست نے سیریز کا دردناک اختتام تحریر کردیا۔آسٹریلیا کی طرف سے لابوشین نے شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو سنچریوں کی مدد سے سب سے زیادہ 549 رنز بنائے جب کہ ناتھن لیون 20 وکٹ کے ساتھ سرفہرست رہے۔لابوشین کے لیے یہ سال بہت اچھا رہا ہے اور وہ آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں نو میچوں میں 1249 رنز بناچکے ہیں۔
ٹم پین کی کپتانی اب خاصی مستحکم ہوگئی ہے جنہیں سٹیو سمتھ کی واپسی پر کپتانی سے سبکدوشی کا خطرہ تھا۔ آئی سی سی رینکنگ میں آسٹریلیا 296 پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر پہنچنے کے بعد وہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک اچھے کپتان ہیں۔
نیوزی لینڈ کے لیے یہ سیریز خاصی مایوس کن رہی ہے۔ تین شکستوں نے اسے پانچویں نمبر پر پہنچا دیا ہے۔ بیٹنگ اور بولنگ سب کچھ ہی توقعات کے خلاف ہوا اور پھر رہی سہی کسر آسٹریلیا کے موسم نے پوری کردی۔
اب محدود اوورز کے تین میچوں کی سیریز کا آغاز 13 جنوری سے سڈنی میں ہوگا۔
تاہم نیوزی لینڈ کی تینوں ٹیسٹ میچوں میں یکطرفہ شکست سے پاکستانی کپتان اظہر علی بہت مطمئن ہوں گے، جنہیں گذشتہ دو ٹیسٹوں میں آسٹریلیا سے شکست کے بعد زبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور کچھ سابق کرکٹرز نے انہیں ٹیم سے باہر کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
نیوزی لینڈ کی شکست نے واضح کردیا کہ آسٹریلیا اپنی سرزمین پر کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ نیوزی لینڈ کو اس سیریز کے بعد بھارت کی میزبانی کرنی ہے، اسی لیے شاید کین ولیمسن ایک روزہ سیریز سے باہر رہ کر آرام کریں اور اگلی سیریز مکمل توانائی سے کھیل سکیں۔