صنفی تفریق پر ورلڈ اکنامک فورم کی سالانہ رپورٹ 2019 کے اواخر میں منظر عام پر آئی اور ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان کا نمبر سب سے آخر درجوں میں آیا۔
گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ میں دنیا کے 153 ممالک میں ہمارا نمبر 151 ہے۔ ہماری کارکردگی بس اتنی رہی کہ اس دفعہ ہم اس انڈیکس میں یمن اور عراق سے آگے رہے۔ اس پر دکھی ہونے کا مقام ہے کیونکہ اس دوڑ میں 150 ممالک اب بھی ہم سے آگے ہیں۔ ہمیں آج بھی، بس اسی پر گزارا کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے کہ چلو دو ممالک سے تو اب بھی ہم آگے ہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ رپورٹ پاکستان میں کوئی خاص توجہ نہ حاصل کر سکی کیونکہ ہمیشہ کی طرح آج بھی خواتین کے مسائل کا حل یا ان پر توجہ کا فقدان ہے۔ بہانہ یہ کیا جاتا ہے کہ ہم اس وقت کئی دیگر اہم اور سنگین مسائل کا شکار ہیں لہذا ابھی مناسب وقت نہیں آیا کہ خواتین کے مسائل پر توجہ دی جائے۔
یہ دلیل آج تک میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ مناسب وقت آخر کب آئے گا۔ بات جب بھی عورتوں کے حقوق اور مسائل کے حل کی ہو تو ہم لوگوں کے رویے سرد پڑ جاتے ہیں اور کچھ کہیں گے بھی تو کہیں گے ’دنیا میں سارے مسئلے ختم ہوگئے ہیں جو اب ہم عورتوں کے مسائل پر بات کریں گے۔‘ اس کا کیا مطلب ہے، کہ جیسے خواتین اس دنیا کا کوئی اہم حصہ نہیں ہیں۔
ایسے میں جب جینڈر گیپ جیسی رپورٹس سامنے آتی ہیں اور خواتین کے معیار زندگی کے جائزے کے بعد اپنا تجزیہ منظر عام پر لاتے ہیں تو ہونا تو یہ چاہیے کہ ہماری حکومت اور متعلقہ ادارے سنجیدگی سے ان تجزیوں پر غور کریں اور ایسے اقدامات کریں جن سے آگے چل کر خواتین کا معیار زندگی بہتر ہو سکے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ دنیا میں ہماری امیج بھی بہتر ہو سکے گی۔
جینڈر گیپ کی رپورٹ ہر خاص و عام کی رسائی کے لیے انٹرنیٹ پر موجود ہے لیکن شاید یہ رپورٹ بہت سارے لوگوں کی نظر سے نہیں گزری ہوگی۔ اس رپورٹ کے مطابق خواتین کے بہتر معیار زندگی اور امتیاز کے خاتمےکا اندازہ تعلیم، صحت، روزگار کے مواقع اور سیاسی ترقی جیسے اہم شعبوں میں ان کی حالت زار کا جائزہ لے کر کیا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کی حالت زار قطعاََ تسلی بخش نہیں ہے بلکہ تشویش ناک ہے لہذا اب ہمیں اپنے سوچ کے زاویے بدلنے ہوں گے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی پاکستان کے مقابلے میں خواتین کے حوالے سے تیزی کے ساتھ بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان جیسے ممالک میں خواتین کے ساتھ امیتازی رویہ ایک عام بات بن گئی ہے اور یہی امتیازی رویہ ہر شعبے میں خواتین کے لیے مشکلات کا باعث بنتا آ رہا ہے۔ یہ رویہ اس وقت تشویش ناک بن جاتا ہے جب یہ تعلیم، صحت، روزگار اور سیاست میں خواتین کے لیے یکساں مواقع پیدا کرنے میں رکاوٹ بنے۔
تعلیم کا شعبہ لے لیں تو آج بھی پاکستان میں 32 فیصد سکول جانے کی عمر کی بچیاں سکولوں سے باہر ہیں۔ پیشتر دور دراز اور دیہی علاقوں میں لڑکیوں کے سکولز نہیں ہیں۔ اور اکثر سکولز میں صاف پانی، چار دیواری اور واش رومز کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ معیاری تعلیم کا حصول تو ایک خواب ہی لگتا ہے۔
دیہی اور دوردراز کے علاقوں میں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان سارے مسائل کے حل کے لیے حکومت وقت کو تعلیم کے شعبے کو توجہ دیتے ہوئے، مناسب وسائل مہیا کرنے ہوں گے اور فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ آج کے دور میں تعلیم کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت کی صورت حال بھی انتہائی غیرتسلی بخش ہے۔ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں خواتین مجبوری کے تحت مرد ڈاکٹرز یا ڈسپنسرز سے علاج کرواتی ہیں۔ جب بچیاں پڑھیں گی لکھیں گی نہیں تو ڈاکٹر کیسے بنیں گی؟ ہم آج تک فرسودہ روایات اور سوچ کے حامل رویوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بہتری تو درکنار، ہم مزید پیچھے جا رہے ہیں۔
روزگار کے مواقعوں کا اگر جائزہ لیں تو خواتین کے لیے کوئی خاص بہتری پیدا نہیں ہوئی۔ خواتین کے پاس سرمائے کی کمی سے لے کر، مارکیٹ تک رسائی جیسی مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری طرف دنیا انفارمیشن ٹیکنالوجی میں حد درجہ تیزی سے ترقی کر رہی ہے جبکہ ہماری خواتین کمپیوٹر لٹریسی میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔ جہاں روزگار میں آج کل ٹیکنالوجی کا استعمال بدرجہ اتم بڑھ رہا ہے وہاں مجھے خدشہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں خواتین کہیں بہت ہی پیچھے نہ رہ جائیں۔ حکومت وقت کو خواتین کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر زور دینا ہوگا۔ خواتین میں فنانشل لٹریسی عام کرنے کے لیے خصوصی طور پر اقدامات کرنے ہوں گے، تاکہ خواتین بھی بہتر روزگار کے مواقعوں سے مستفید ہوسکیں۔
خواتین کی ترقی اورصنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے سیاسی عمل میں خواتین کی بھرپور شرکت کے لیے سیاسی جماعتوں اور حکومت کے متعلقہ اداروں کو سنجیدگی سے اقدامات کرنے ہوں گے۔ حالیہ دور میں خواتین کو جنرل سیٹس میں پانچ فیصد کوٹہ اور انتخابات کے دوران کم سے کم 10 فیصد بذریعہ ووٹ رائے دہی کے لازمی قرار دینے جیسے اقدامات سے خواتین کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ اب یہ سیاسی جماعتوں اور عوام کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کو سیاست میں بھرپور شرکت کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
ورلڈ اکنامک فورم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے مکمل خاتمے اور متوازی ترقی کے لیے آج کی دنیا کو تقریباََ 100 سال مزید درکار ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس وقت بہت سے ممالک اور اہم بین الاقومی اداروں میں خواتین اہم ترین عہدوں پر فائز ہو رہی ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر صنفی امتیاز میں کمی میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ اس حوالے سے ورلڈ اکنامک فورم کے سربراہ کلاز شواب کا کہنا ہے کہ جس رفتار سے ہم دنیا سے امتیازی سلوک کا خاتمہ کر رہیں ہیں اس حساب سے لگتا ہے کہ ہمیں مزید ایک صدی کا عرصہ درکار ہوگا، جو کہ آج کی گلوبلائزڈ دنیا میں کسی کو قابل قبول نہیں، خصوصی طور پر نوجوان نسل کو جس کے خیالات تیزی سے بدل رہیں ہیں اور وہ برابری کی دنیا پر یقین رکھتے ہیں۔
میرا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے سیاسی مرضی کی اشد ضرورت ہے۔ جس دن عوام اور حکومت نے صنفی امتیاز کو ایک سنجیدہ مسئلہ سمجھتے ہوئے سنجیدہ سوچ، بروقت اور موثر اقدامات کی ٹھان لی، تب دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کے حساب سے یہ مسئلہ مکمل طور پر حل ہوجائے گا۔