مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنااللہ نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے کے حوالے سے کہا ہے کہ ووٹرز کی ناراضگی ہی درحقیقت ووٹ کی عزت ہے۔ یہ جو تنقید ہو رہی ہے یہی ووٹ کو عزت دلائے گی۔
آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اس سے پہلے فیصلے پردے کے پیچھے ہوتے تھے اور صادر کر دیے جاتے تھے لیکن اب پارلیمنٹ کی ذریعے سب کچھ ہوا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ یہ فیصلہ مسلم لیگ ن کا غیرمقبول فیصلہ ہے اور عوامی سطح پر شاید اتنی پذیرائی بھی نہیں ملی۔
’یہ جو ووٹرز کی ناراضگی ہے اس کا مطلب ہے کہ ووٹر نے اپنی عزت کو محسوس کر لیا ہے اور یہی مسلم لیگ ن کی کامیابی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اب بھی پارٹی میں حتمی فیصلہ میاں نواز شریف کا ہی ہوتا ہے اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے حوالے سے بھی خاص ہدایت تھی کہ اس معاملے پر بالکل کوئی سیاست نہیں کرنی اس لیے اس معاملے پر کچھ اراکین تخفظات ہونے کے باوجود خاموش ہیں۔‘
کیا یہ رضامندی ڈیل کا نتیجہ ہے؟
جب اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ ن کے درمیان کوئی ڈیل ہوئی جس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن نے مسلح افواج ترمیمی ایکٹ پر آمنا صدقنا کہا؟ رانا ثنااللہ نے جواب دیا کہ یہ جو تاثر دیا جا رہا ہے کہ ڈیل ہوئی ہے تو ایسا بالکل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ تو 19 اگست کو ہوا تھا اور تب بھی مسلم لیگ ن بشمول پیپلز پارٹی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا بلکہ فیصلے کی حمایت کی تھی۔
’اگست میں میاں نواز شریف جیل میں تھے، وہ خود اور دیگر ن لیگی رہنما بھی جیل میں تھے۔ مریم نواز بھی دس روز بعد پابند سلاسل ہو گئیں تھیں۔ تو اگر ڈیل ہوتی تو اُس وقت سب جیل میں نہ ہوتے۔‘
انہوں نے کہا کہ سب توسیع کے حوالے سے بات کر رہے ہیں توسیع تو ابھی ہوئی نہیں وہ تو ابھی ہونی ہے۔ یہ تو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق قانون سازی کی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا مطلب یہ نہیں کہ صرف مسلم لیگ ن کو ووٹ دیں بلکہ اس کا مطلب ہے کہ سب کے ووٹ کی عزت کریں اور یہی جمہوری سوچ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مریم نواز کی خاموشی: مجبوری یا مخالفت؟
رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ رہائی کے بعد اپنے اہلخانہ کے ہمراہ مریم نواز اور نواز شریف کی والدہ سے ملنے گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز اپنے والد کی صحت بارے بہت پریشان ہیں۔
’مریم نواز کو کسی نے نہیں روکا اور نہ ہی کوئی مجبوری ہے بلکہ وہ میاں نواز شریف کی صحت کی وجہ سے فی الحال سیاست نہیں کرنا چاہتیں۔‘
رانا ثنااللہ کے مطابق مریم نواز شریف کا کہنا ہے کہ انہیں یہ اچھا نہیں لگ رہا کہ والد بیمار ہوں اور وہ سیاست کرتی رہیں۔
کیا مسلم لیگ ن میں دو بیانیے چل رہے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں رانا ثنااللہ نے بتایا کہ میاں شہباز شریف کا کوئی بیانیہ نہیں ہے بلکہ اُن کی رائے ہوتی ہے جو کہ ہمیشہ رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف چاہتے ہیں کہ پہلے حکمت عملی بنائی جائے پھر کوئی کارروائی یا فیصلہ کیا جائے لیکن پارٹی میں حتمی فیصلہ میاں نواز شریف کا ہی ہوتا ہے اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے حوالے سے بھی خاص ہدایت تھی کہ اس معاملے پر بالکل کوئی سیاست نہیں کرنی۔