سیاست اور زراعت میں ایک چیز مشترک ہے۔ جو آج بویا جائے اسے فصل کے پک جانے پر کل کاٹنا پڑتا ہے۔ ایک ’انجینرڈ پارلیمان نے جو بیج بدھ کو بویا ہے اس کی فصل پاکستان یہ قوم کافی عرصے تک کاٹے گی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی اشرافیہ کے غلط فیصلے اس بات کو خود ثابت کر رہے ہیں کے موجودہ جمہوریہ ناکارہ ہے۔ انہی غلط فیصلوں کی وجہ سے جعلی بت ٹوٹ رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن نے بڑی محنت سے ووٹ کو عزت دو کے بت کو تراشا تھا جس کی بنیاد پر نہ صرف وہ 2018 کے الیکشن میں بڑی تعداد میں نشستیں جیت پائی بلکہ اسی سیاسی کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ڈیل بھی لی۔ مگر اب یہ جعلی بت ٹوٹ چکا ہے اور اس کی کرچیوں سے پارٹی کی تمام قیادت زخمی ہو چکی ہے اور شاید اسی سے ان کی پنجاب میں سیاسی موت واقع ہو جو اس سے پہلے پی پی پی کا مقدر بنی۔
اپنے ووٹروں کے غصہ سے بچنے کے لیے مسلم لیگ ن کی قیادت انتہائی مضحکہ خیز بیان دے رہی۔ مثلاً یہ کے شریف خاندان پر بڑے ظلم ہوئے مگر ایکسٹنشن بھی انہی کو دی جنہوں نے ظلم ڈھائے۔ اور یہ کہ قوم نے ساتھ نہیں دیا۔ اگر قوم ساتھ نہیں تھی تو پنجاب میں اتنی سیٹیں کیسے ملیں، جی ٹی روڈ کی ریلی کیوں کامیاب ہوئی اور مریم نواز کا فیصل آباد کا جلسہ اتنا بھرا ہوا کیوں تھا؟ اگر قوم ساتھ نہیں تھی تو فضل الرحمان کو خط لکھ کر یہ کیوں وعدہ کیا کے آزادی مارچ میں ’تن من دھن کے ساتھ‘ آپ کے ساتھ ہیں۔ جب ایکسٹنشن کی غیرمشروط حمایت کا فیصلہ کیا تو کیا مولانا فضل الرحمان کو اعتماد میں لیا جنہیں بڑا انقلابی خط لکھا تھا۔
آزادی مارچ بھی ایک جعلی بت تھا جو بدھ کو ٹوٹ کر بکھر گیا۔ ہم نے آزادی مارچ کی مخالفت کی تھی اور مولانا کو کہا تھا کے جعلی انقلابیوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ انہیں یہ بھی کہا تھا کے اگر مارچ سیاسی انجینرنگ اور دھاندلی کے خلاف ہے تو اسے الیکشن کمیشن کے باہر کریں یا ان لوگوں کے خلاف جن کا نام انجینرنگ میں آ رہا ہے۔ مگر مولانا بھی انجینرنگ سے ماضی میں فائدہ اٹھا چکے ہیں اس لیے ان کی ایکسٹنشن کے خلاف کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ جعلی انقلابی مارچ کی پاکستان میں موت واقع ہو چکی ہے۔
سب سے بڑا بت جو ٹوٹا وہ تبدیلی اور جعلی مسیحا کا ہے۔ عمران خان 22 سال تک قوم کو ایک ایسا خواب دکھاتے رہے جسے پورا کرنے کی نہ ان میں صلاحیت ہے اور نہ ان کی نیت ہے۔ تقریباً ہر وعدے پر وہ یو ٹرن لے کر اسے توڑ چکے ہیں۔ کشمیر، غربت، قوم کی دنیا میں عزت، روزگار، میرٹ، احتساب اور جمہوریت ہر وعدہ ایک ڈراونا خواب بن کر قوم کے سامنے ہے۔ آج قوم تبدیلی کے نام سے نفرت کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور بت جس کے کئی ہزار ٹکڑے ہوگئے وہ فوج کے سربراہ کا یہ دعوی ہے کے وہ قوم اور ادارے کے مفاد کو ذاتی مفاد سے اوپر رکھتے ہیں۔ موجودہ سربراہ جو قوم کو تین سال تک یہ کہتے رہے کہ انہیں ایکسٹنشن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے آخر میں وہاں پہنچے کے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہو گئے۔
2009 کے بعد عدلیہ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کے انہوں نے انصاف اور قانون کا ایک نیا بت تیار کیا ہے جسے وہ ٹوٹنے نہیں دیں گے۔ مگر یہ بت بھی پاناما کیس، ایکسٹنشن کے فیصلے اور ساہیوال سانحے کے فیصلے وہ واقعات ہیں جنہوں نے انصاف کے بت کو بھرے بازار میں توڑا ہے۔
جیسے جیسے یہ بت ٹوٹ رہے ہیں ویسے ہی نئی عوامی جمہوریہ کے لیے بظاہر راہ ہموار ہو رہی ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے یہ بت بنا رکھے تھے کہ وہ جمہوری ہیں اور ان میں اہم فیصلے مشاورت اور بحث کے بعد طے پاتے ہیں۔ یہ بت اس وقت ٹوٹا جب سینٹ چیئرمین کی عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی اور اب ایکسٹنشن کی قانون سازی نے اس کے مزید ٹکڑے کئے۔ سینٹ چیئرمین کی عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد ایک بہت سینیئر سیاستدان نے مجھ سے کہا کے ان لوگوں کی نشاندہی میں مدد کریں جنہوں نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی۔ میں نے معذرت کر لی اس لیے کے اس عمل میں اصل کھیل پارٹیوں کے اپنے سربراہوں نے کھیلا مگر انہیں سزا دینا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ ایکسٹنشن قانون سازی کے معاملے بھی یہی ہوا۔
قوم اپنی آنکھیں کھولے۔ مسیحاوں کا انتظار چھوڑے۔ ہم سب کو مل کر اب ایک نئی عوامی جمہوریہ کی بنیاد رکھنی ہوگی۔ حکمران اشرافیہ کو یہ بتانا ہوگا کے ان کا وقت ختم ہو چکا ہے اب عوام کی باری ہے۔ اس کے لیے پہلا مرحلہ یہ ہے کے مذاکرات کی ٹیبل لگائی جائے۔ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔