بلوچستان کے بالائی علاقے زمانہ قدیم سے سرد ترین علاقوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ برف باری کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے اور اپنی حفاظت کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات بعد میں باقاعدہ رسومات بن گئیں۔ برف باری سے جڑی ایک کہانی بہت مشہور ہے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے محقق اور براہوی زبان کے ماہر محمد اکرم اس کہانی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’نوروز‘ نامی ایک شکاری سردیوں میں ’مارخور‘ کا شکار کرنے پہاڑوں کی طرف گیا۔ ایک پہاڑی کے نیچے اسے ایک پہاڑی بکرا (مارخور) نظر آیا جس پر نشانہ لیتے وقت نوروز کو بکرے کی ایک آواز سنائی دی۔ نوروز نے شکار کا منصوبہ ترک کیا اور واپس گھر پہنچ کر اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ ایک بچھڑے کو ذبح کر دو۔
محمد اکرم کے مطابق شام کو بادل آئے اور برف باری شروع ہوگئی۔ نوروز نے بیٹوں کو بچھڑے کا گوشت کھلایا اور کہا کہ جا کر چھت سے برف صاف کر دیں۔ برف باری کاسلسلہ چھ دن تک جاری رہا۔ جب برف باری رکی تو گوشت بھی ختم ہوچکا تھا۔ نوروز نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ چھت پر دیکھیں کہ آس پاس کوئی زندہ بچا ہے کہ نہیں جس پر بیٹوں نے کہا کہ ابا جان! صرف سیاہ پرندے نظر آ رہے ہیں باقی کچھ نہیں۔
محمد اکرم کے بقول نوروز ایک جہان دیدہ شخص تھا جو موسم کا حال جاننے کا ماہر تھا۔ اس نے پہاڑی بکرے سے موسم کی معلومات لیں اور اپنے کنبے کو برف باری سے پیدا ہونے والی مشکلات سے محفوظ رکھا۔ اس عمل کو براہوی زبان میں ’کلہ بند‘ یعنی (قلعہ بند) ہونا کہا جاتا ہے۔
محمد اکرم کے مطابق ماضی میں یہ علاقہ سرد رہتا تھا جس کی وجہ سے براہوی قبائل کو مجبوراً خانہ بدوشی اختیار کرنا پڑتی تھی اور خشک گوشت جسے براہوی میں ’خدید‘ اور پشتو میں لاندی کہتے ہیں کا رواج شروع ہوا۔
محمد اکرم کے مطابق بلوچستان میں جب بھی شدید برف باری ہو تو لوگ اسی عمل کو جاری رکھتے ہوئے ایک ایک ہفتے کا راشن اور دیگر سامان گھر میں جمع کرتے ہیں تاکہ موسم کی خراب صورت حال کے دوران وہ زندہ اور محفوظ رہ سکیں۔
گو کہ کوئٹہ اور اس کے مضافات میں ان دنوں ہونے والی شدید برف باری نے 20 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے مگر آج کل کے نوجوان اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے اس عمل سے ناواقف ہیں۔ تاہم محمد اکرم کے مطابق بعض دیہی علاقوں میں آج بھی یہ عمل روایتی طور پر جاری ہے۔
دوسری جانب برف باری کی خوشی میں پشتون علاقوں میں بھی روایتی طور مختلف رسم و رواج زمانہ قدیم سے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں ایک رسم چھتوں پر پڑی برف کو صاف کرنے کے دوران بھی خوشی کا منایا جانا شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس رسم کو پشتو زبان میں منڈوانوں سر تورول یعنی چھتوں سے برف صاف کرنا کہا جاتا ہے۔ بلوچستان کے بالائی سرد علاقوں میں کوئٹہ، زیارت، پشین، قلات، توبہ کاکڑی، ہربوئی، مستونگ، ہرنائی اور سنجاوی جیسے علاقے شامل ہیں۔
اس رسم کی ادائیگی کچھ اس طرح سے چلے آ رہی ہے کہ جب بھی برف باری ہوتی ہے تو کلی یا گاوں کے لوگ گھروں سے نکل کر یہ آواز لگاتے ہیں کہ منڈوانوں سر تورول یعنی چھتوں سے برف صاف کرنا ہے۔ اس اعلان کے بعد نوجوان اور ہر عمر کے لوگ اکھٹے ہوتے ہیں اور برف ہٹانے کے لیے مختلف اوزار اٹھا کر کام شروع کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک ماہر تعلیم اور محقق پروفیسر فیض محمد شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اصل میں اس رسم کا مقصد اجتماعیت ہے یعنی ایک بندہ اکیلے مکان کے چھتوں پر پڑی برف ہٹانے کی سکت نہیں رکھتا مگر جب سب لوگ مل کر یہ کام کرتے تو یہ آسان ہو جاتا ہے۔
پروفیسر شہزاد کے مطابق برف باری جہاں بلوچستان میں ایک خوش حالی کی نوید سمجھی جاتی ہے وہیں اس کے ساتھ بہت سی جڑی رسومات سے معاشرے میں ایک دوسرے کی مدد اور محبت و بھائی چارہ پروان چڑھتا ہے۔
برف باری کے دوران ایک اور کھیل کھیلا جاتا ہے جس میں لوگ خوشی سے ایک دوسرے کو ایک مخصوص طریقے سے برف مارتے ہیں۔
پروفیسر فیض کے بقول پشتون اکثریتی علاقوں میں جب برف پڑتی ہے تو ایک نوجوان برف کا گولہ بنا کر چھپکے سے کسی کے مکان میں داخل ہو جاتا ہے اور گھر کے سربراہ کو نشانہ بناتا ہے۔
برف سے نشانہ بنانے والا شخص اس کے بعد بھاگ جاتا ہے اور گھر والا اسے پکڑنے کے لیے اس کا پیچھا کرتا ہے۔ اس دوران اگر مار کھانے والا اسے پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو اسے مارنے والے کو یہاں کی مشہور روایتی گوشت لاندی یعنی خشک گوشت کی دعوت دینی پڑتی ہے۔