سندھ کے شہر کراچی سے لے کر بلوچستان میں گوادر اور جیوانی کے ساحلوں اور گلگت بلتستان کے بلند و بالا پہاڑوں تک، ملک کے طول و عرض میں موسم کی پیشن گوئی کرنے کے لیے محکمہ موسمیات کے 105 موسمی رصد گاہیں یا ویدر آبزرویٹریز سطح زمین پر قائم ہیں۔
ان رصد گاہوں میں ہر تین گھنٹے بعد ڈیٹا ریکارڈ کیا جاتا ہے، جس میں درجہ حرارت، فضائی دباؤ، ہوا کی رفتار اور رُخ، بادلوں کی معلومات، حد نظر، ہوا میں نمی کا تناسب اور بارش سے متعلق اعداد و شمار شامل ہیں۔
محکمہ موسمیات سندھ کے چیف میٹرلوجسٹ سردار سرفراز نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ ان کے محکمے کے پاس موسم کے متعلق معلومات اکھٹی کرنے لیے جدید آلات کے علاوہ پُرانے دور کے ہاتھ سے چلنے والے آلوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محکمہ موسیات کی کراچی ایئرپورٹ کے عقب میں واقع موسمی رصد گاہ کے متعلق بات کرتے ہوئے سردار سرفراز نے کہا: 'ہماری اس رصد گاہ میں ایک خودکار موسمی سٹیشن قائم ہے جو بارش کے پانی، ہوا کے رخ اور رفتار، ہوا میں نمی کے تناسب کو خودکار طریقے سے ناپتا ہے۔
’اس کے علاوہ بارش کی مقدار ناپنے کے لیے ہاتھ سے چلنے والا ایک آلہ اور ہوا کی قوت کو ناپنے کیے اینومومیٹر، درجہ حرارت ناپنے کے کیے تھرما میٹر لگے ہوئے ہیں۔ جبکہ اس رصد گاہ میں یہ تمام آلے تیار کرکے ملک بھر کی دیگر رصد گاہوں کو بھی بھیجے جاتے ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ محکمے کے پاس موسم کے متعلق معلومات لینے کے لیے اپنا ریڈار نہیں ہے مگر حالیہ دنوں میں جاپان حکومت نے کراچی میں ایک ریڈار نصب کیا ہے جو جلد ہی کام شروع کردے گا۔
’اسلام آباد میں بھی ایک ریڈار نصب کیا جا چکا ہے جبکہ بہت جلد ملتان اور سکھر میں بھی ایسے ریڈار نصب کیے جائیں گے جس سے موسم کا حال جاننے میں آسانی ہوگی۔‘
پاکستان بھر میں نصب زلزلہ پیما کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا: 'پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے جتنے زلزلہ پیما ہونے چاہییں اتنے میسر نہیں ہیں۔ اس وقت پاکستان میں کم شدت اور شدید زلزلہ ناپنے کے لیے 18 زلزلہ پیما لگے ہوئے ہیں۔
’یہ زلزلہ پیما پاکستان میں کہیں بھی آنے والے زلزلے کو ریکارڈ کرکے ڈیٹا کراچی میں قائم مرکزی سٹیشن کو بھجتے ہیں جہاں کمپیوٹر مانیٹرنگز پر یہ ڈیٹا نظر آتا ہے۔'