وفاقی حکومت اور اے آر وائی چینل کی اس کوشش کے باوجود کہ وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا کے ٹاک شو میں بوٹ لانے کا تنازع ختم ہو جائے، سوشل میڈیا پر اب بھی کئی لوگ ٹی وی اینکر اور وزیر کو سنائی جانے والی سزا میں فرق پر تنقید کر رہے ہیں۔
پاکستان کے ٹی وی چینلوں پر شروع ہونے والے قضیہ پر کڑی تنقید اور دباؤ کے بعد فریقین نے یعنی پیمرا اور وزیر اعظم نے سزائیں سنا دیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے پیمرا نے ’آف دا ریکارڈ‘ ٹاک شو کی نشریات اور اینکر کاشف عباسی پر کسی بھی ٹی وی چینل پر آنے کی 60 روز کے لیے پابندی عائد کر دی۔ ادارے نے بغیر کسی شنوائی کے فیصل واوڈا کی گفتگو کو غیر اخلاقی، توہین آمیز اور ایک ریاستی ادارے کی تذلیل کی کوشش قرار دیا لیکن سزا صرف کاشف عباسی کو سنائی۔ اس کی وجہ اس کا میزبان کاشف عباسی کے کردار کو غیرپیشہ ورانہ قرار دینا تھا۔
تاہم یہ اقدام کاشف کی جانب سے دوسرے روز ہی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ناظرین سے معذرت طلب کرنے کے بعد سامنے آیا۔
دوسری جانب فیصل واوڈا معافی مانگنے سے گریز کرتے رہے۔ بلکہ وہ تاحال اپنے رویے کا دفاع کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے فوجی بوٹ سامنے رکھ کر غیراخلاقی گفتگو کرنے کی وجہ سے فیصل واوڈا پر ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت پر دو ہفتوں کے لیے پابندی لگا دی۔
ماہرین اور عوام اس بات پر حیران ہیں کہ جس نے اعتراف جرم کیا اور معافی مانگی، اسے تو 60 روز کی سزا ملی لیکن جو اپنے کیے پر نہیں پچھتا رہے اسے محض 15 دن کی ’سزا‘ کیوں؟ تاہم پیمرا نے اپنے بیان کے چند گھنٹوں بعد ہی خاموشی سے بغیر کسی وضاحت کے اپنا فیصلہ واپس لے لیا؟
کاشف عباسی کا کتنا قصورہے؟
کاشف عباسی کا موقف ہے کہ براہ راست نشریات کے دوران اینکر کی پوزیشن بہت کمزور ہوتی ہے اور ہر چیز کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا اور نہ اینکر یا کوئی چینل کا ملازم جان سکتا ہے کہ انتہائی اہم مہمان (وزرا، سینیٹرزوغیرہ) اپنے ساتھ کیا لے کر آ رہے ہیں۔ اس کے برعکس سینیئر صحافی کاشف کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
تجزیہ کار اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سابق جنرل سیکریٹری مظہر عباس کہتے ہیں ’جو کچھ ہوا، نہایت ہی غیرمہذب اور غیراخلاقی تھا اور اسے روکا جا سکتا تھا۔‘ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ کاشف عباسی کو چاہیے تھا کہ فیصل واوڈا کوایسا کرنے سے روکتے۔
پی ایف یو جے کے موجودہ جنرل سیکریٹری جنرل ناصر زیدی کے مطابق ’اس سارے معاملے کی تمام تر ذمہ داری پروگرام کے اینکر پر آتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میڈیا کسی پروگرام میں نفرت کے پرچار کی اجازت دے؟‘
ناصر زیدی نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے نمائندوں کے جانے کے بعد بھی اینکر نے پروگرام جاری رکھا۔
میڈیا کے حقوق کے لیے کام کرنے والے فریڈم نیٹ ورک کے اقبال خٹک کا کہنا تھا: ’یہ معاملہ ثابت کرتا ہے کہ میڈیا کے اداروں کے پاس پروگرام کنٹرول کرنے کا موثر اندرونی نظام موجود نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ پیمرا کی جانب سے پابندی غلطیوں کو کنٹرول کرنے کا بیرونی نظام ہے جبکہ میڈیا ہاؤسز کے اندر خودکار نظام ہونا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انھوں نے یقین کا اظہار کیا کہ یہ سب کچھ پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہیں کیا گیا بلکہ یہ ہوگیا ہوگا۔ ’لیکن بہت غلط ہوا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘
سزا کتنی سخت ہے؟
پیمرا کی جانب سے صحافیوں یا اینکر پرسنز کو سزائیں دینا کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں کئی صحافیوں، اینکر پرسنز اور ان کے پروگرامز پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر شاہد مسعود، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین، مبشر لقمان اور حفیظ اللہ نیازی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
مظہر عباس کے مطابق پیمرا نے کاشف عباسی کو سزا دینے میں متعلقہ قانون میں موجود طریقہ کار پر عمل درآمد نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی شکایت کو کونسل آف کمپلینٹس کے سامنے رکھا جانا چاہیے تھا، جہاں سے کاشف عباسی اور اے آر وائی کو نوٹس جاری ہوتا اور انھیں تحریری جواب کا حق دیا جاتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پیمرا کاشف عباسی کو ذاتی طور پر طلب کر کے نوٹس جاری کر سکتا تھا۔
مظہر عباس کا خیال تھا کہ اس پروگرام کے سلسلے میں پیمرا پر ضرور کہیں سے دباؤ آیا ہوگا جو انھوں نے 24 گھنٹوں کے اندر ایسا قدم اٹھایا، لیکن اس فیصلے کو پھر اس سے بھی کم مدت میں واپس لینے پر بھی کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا کہ آیا معاملہ رفع دفع ہوگیا ہے یا ابھی چینل کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔
صحافی اور وکیل ریما عمر کے خیال میں پیمرا قانون کے تحت کسی پروگرام پر مستقبل میں پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ پیمرا زیادہ سے زیادہ اس پروگرام کا دوبارہ نشر کیا جانا روک سکتا تھا۔
صحافیوں اور آزای صحافت کے لیے کام کرنے والے عدنان رحمت نے سوال اٹھایا کہ اس معاملے میں شکایت اور شکایت کنندہ کہاں ہے؟ اور جب یہ دونوں چیزیں موجود نہیں ہیں تو سزا کیسی؟
کیا سزا اظہار رائے پر قدغن ہے؟
عدنان رحمت کا کہنا تھا کہ ’لگتا ہے جیسے یہ سزا بھی پاکستان میں اظہار رائے پر پابندی لگانے کے لیے جاری اقدامات کا حصہ ہے۔ موجودہ وقت میں کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ جہاں ہو سکے میڈیا کو سزا دی جائے۔‘ انھوں نے بھی سوال اٹھایا کہ فیصل واوڈا اور کاشف عباسی کی سزاؤں میں فرق کی وضاحت نہیں کی گئی۔
فیصل واوڈا کو سزا
اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے فیصل واوڈا پر دو ہفتے کے لیے ٹی وی شوز میں جانے پر پابندی لگا دی ہے، لیکن اکثر حلقوں کا خیال ہے کہ فیصل واوڈا کو مناسب اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق سزا نہیں ملی۔
عدنان رحمت کہتے ہیں: کاشف عباسی کو سزا دینا اور فیصل واوڈا کو چھوڑ دینا ایسا ہی ہے جیسے shooting the messenger.
عدنان رحمت کے خیال میں فیصل واوڈا کے طرز عمل سے متعلق ایک نوٹس تحریک انصاف کو بھی جانا چاہیے تھا۔ اور ایسا نہیں ہوا۔
وکیل بابر ستار نے وزیر اعظم کی جانب سے فیصل واوڈا پر لگائی گئی پابندی پر بھی اعتراض اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے کس قانون کے تحت اپنے کسی وزیر کی اظہار رائے پر قدغن لگائی ہے۔ ’ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ وہ انھیں وزارت سے تو نکال سکتے ہیں۔ لیکن پر یہ پابندی نہیں لگا سکتے۔‘
’آف دا ریکارڈ‘ کے اچانک جمعرات کی رات دوبارہ بحال ہونے پر بھی حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ کاشف عباسی نے وضاحت کی کہ چینل نے پیمرا کے نوٹس پر تفصیلی جواب دیا جس کے بعد انھیں پروگرام کرنے کی اجازت دی گئی۔ لیکن پیمرا اس پر خاموش ہے۔
بعض لوگ شک کرتے ہیں کہ پیمرا طاقت ور وزیر اور میڈیا چینل کے درمیان پھنس گیا تھا اور اسے اپنے ردعمل کی وضاحت کرنی چاہیے۔ بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر پیمرا اپنی سزا کے بارے میں پراعتماد نہیں تھی تو سنانے کی اسے کیا جلدی تھی؟