سنا ہے پھر سے ایک بچی کی لاش ملی ہے۔ اب اس ملک میں بچیوں کی لاشیں ہی ملا کرتی ہیں، کبھی کوڑے کے ڈھیر پر تو کبھی سڑک کنارے تو کبھی کسی نالے میں تو کبھی کسی پانی کی ٹینکی میں۔ ان لاشوں کی عمریں تین سے دس سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ کچھ سنگ دل ان کے کپڑوں کو قصور وار ٹھہراتے ہیں تو کچھ والدین کو کوستے ہیں، جو اصل قصور وار ہے وہ اس 'بلیم گیم' کے دوران اگلے شکار کی طرف چل دیتا ہے۔
ایسے واقعات صرف بچیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ چھوٹے لڑکے بھی ان کا شکار ہوتے ہیں۔ مدارس میں بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسے ہر واقعے کے بعد ہمارا دل دہلتا ہے، خبریں بنتی ہیں، ہیش ٹیگ چلتے ہیں، حکومت بھی کچھ اقدامات کرتی ہے، اور پھر ویسا ہی ایک اور واقعہ ہو جاتا ہے اور ہم پھر اسی گول دائرے میں چلنے لگتے ہیں، معاملے کے حل کی طرف نہیں آتے۔
ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق نوشہرہ واقعے میں ملزم نے بچی کو لپ سٹک کا لالچ دے کر قریبی زیر تعمیر عمارت میں بلایا تھا۔ اس کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا، اس کا حال ابھی تک نامعلوم ہے۔ اس وقت جب میں بلاگ لکھ رہی ہوں، پولیس میڈیکل رپورٹ کا انتظار کر رہی ہے۔ معاملہ جنسی زیادتی کا ہی لگتا ہے لیکن میڈیکل رپورٹ کے بغیر حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ایسے واقعات کم و بیش ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ مجرم بچے کا قریبی جاننے والا ہوتا ہے، اسے بچے کی روٹین کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ بچے کی کچھ دن ریکی کی جاتی ہے، وقوع کے دن بچے کو اس کی من پسند چیز کا لالچ دے کر کسی سنسان جگہ لے جایا جاتا ہے اور ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے پھینک دیا جاتا ہے۔
ہمارے گلی محلوں سے ملنے والی یہ لاشیں سالوں سے درندگی کی داستانیں سنا رہی ہیں لیکن ہم بھی ایسے ڈھیٹ ہیں کہ کان لپیٹے بیٹھے ہیں۔ جب اپنا گھر محفوظ ہو تو دوسرے کے گھر میں لگی آگ نظر نہیں آیا کرتی۔ ہم لاشیں اٹھاتے اٹھاتے بھی نہیں تھکتے ورنہ کبھی تو ان حکمرانوں سے پوچھتے کہ اور کتنی لاشیں تمہیں جگانے کے لیے کافی ہوں گی؟
ہم نے زینب انصاری قتل کیس سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ اس کیس کا مجرم عمران علی نے زینب سے پہلے سات کم سن لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا تھا جن میں سے بعض کو اس نے قتل بھی کیا تھا۔ عمران علی تین سال تک نامعلوم رہا۔ زینب کے قتل کے بعد معاملہ اٹھا تو حکومت بھی فعال ہوئی، تب کہیں جا کر اس کی پکڑ ہوئی۔
اس سال بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے موضوع پر ہر سطح پر بات ہوئی لیکن اسی سال، ساحل کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر کے اخبارات میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 3832 واقعات رپورٹ ہوئے۔ اس سے ان واقعات کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو شرم کی وجہ سے رپورٹ نہیں ہوتے اور یقیناً ایسے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
اسی قصور میں جہاں سے زینب کی لاش ملی تھی، دو ہفتے قبل ایک باپ نے اپنی 12 سالہ بیٹی 500 روپے کے عوض ایک شخص کو جنسی عمل کے لیے بیچی تھی۔ بچی کی والدہ نے واقعے کا علم ہونے پر اپنے شوہر کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی اور اسے جیل بھجوایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان تمام واقعات کے بعد سیکس ایجوکیشن کی افادیت اور اس کو سکولوں اور کالجوں کے نصاب کا حصہ بنانے کی بات کی جاتی ہے لیکن اس کی مخالفت میں مذہبی طبقہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ سیکس ایجوکیشن کی مد میں بچوں کو سیکس کرنے کا طریقہ سکھایا جائے گا۔ سب سے پہلے تو انہیں سیکس ایجوکیشن دی جانی چاہیے تاکہ ان کے آلودہ ذہن صاف ہوں۔ اگر ان کے ذہن تب بھی صاف نہ ہوں تو اپنے بچوں کی زندگی کی خاطر ان پر مقدمہ چلا کر انہیں حراست میں لیا جائے۔
اس کے بعد بچوں کو سیکس ایجوکیشن دی جائے جس میں انہیں گُڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں بتایا جائے تاکہ وہ کم از کم اپنے ساتھ ہونے والے مختلف سلوک کو سمجھ سکیں اور اس بارے میں کسی سے بات کر سکیں۔ اس کے علاوہ شادی کرنے والے ہر جوڑے کے لیے شادی سے پہلے کاؤنسلنگ سیشنز بھی ہونے چاہیے جن میں انہیں شادی اور اس کے بعد کی ذمہ داریوں کے بارے میں بتایا جانا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے بھی جوڑے ہیں جو کھلونوں سے کھیلنے کی عمر میں والدین بن جاتے ہیں۔ پھر ہمارا خاندانی نطام اس قدم پیچیدہ ہے کہ جوڑا اس کی الجھنیں سلجھاتے سلجھاتے اپنے ہی بچوں پر توجہ نہیں دے پاتا۔
اس حوالے سے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ قومی اسمبلی نے زینب الرٹ بل متفقہ طور پر منطور کر لیا ہے۔ اب بچوں کے ساتھ جرائم کے واقعات کو رپورٹ کرنے اور ان کی تفتیش کا طریقہ کار واضح ہو گیا ہے لیکن اس پر کس قدر عمل ہوگا، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
ایک اور اہم کام جو ہمیں کرنا ہے وہ ایسے واقعات کے حوالے سے معاشرے میں موجود بےحسی کا خاتمہ ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک ایسا بھیانک فعل ہے جسے سن کر بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔ اگر اس حوالے سے کوئی سوشل میڈیا، مین سٹریم میڈیا یا کسی پلیٹ فارم پر مزاح کرتا پایا جائے تو اسے بھی آڑے ہاتھوں لینا چاہیے کیونکہ کچھ چیزیں مزاحیہ نہیں ہوتیں۔
یہ بےحسی ہمارے قانونی اداروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ بچوں کے اغوا کے واقعات کی رپورٹ اور تفتیش میں دیر اسی بےحسی کا نتیجہ ہے۔ جب تک ہم ان واقعات کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے، تب تک یہ واقعات ہوتے رہیں گے اور ہم اپنے بچوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ اسی لیے اب اٹھو اور کر گزرو۔