جب بیٹی فریڈن سے کہا گیا کہ وہ اپنی ہم جماعتوں سے پندرہویں ری یونین پر سروے کریں تو وہ انھوں نے ایک عالمی تحریک شروع کرنے کا نہیں سوچا ہوگا لیکن ان کے سوالوں کے جوابات سے یہ سامنے آیا کہ ان کی سہیلیاں اپنی بطور گھریلو خواتین زندگی سے خوش نہیں ہیں۔ اور ان کے جوابات نے 1963 میں سامنے آنے والے دی فیمینن مسٹِیک کی بنیاد رکھی جو کہ فیمنزم کی دوسری لہر کا پیش خیمہ بنا۔
اب نصف دہائی کے بعد انٹرنیٹ کا ایک چھوٹا سا حصہ (جسے کچھ ہیڈلائنز میں ایک سویپنگ ٹرینڈ یعنی اکثریتی رجحان قرار دیا جا رہا ہے) واپسی کی راہ پر گامزن ہے اور وہ اپنے ساتھ مزید خواتین کو لا رہا ہے۔
خود ساختہ ’ٹراڈ وائیوز‘ گھریلو خواتین کا ایک گروپ ہے جو اپنی پسند سے یہ فیصلہ خود پر مسلط کرتی ہیں کہ خواتین کا کردار صرف گھر تک محدود ہے اور وہ اپنے شوہروں کی فرماںبرداری کریں (جو انہیں ماہانہ خرچہ دیتے ہیں)نیز ایک پرہیزی زندگی گزاریں جو ان کا یقین ہے کہ فیمنسٹوں نے ان سے چھین لی ہے۔
اسی گروپ میں کچھ سخت گیر خواتین ایسے قدامت پسند طرز زندگی کو بھی اپنا لیتی ہیں جو انھیں ان ’اچھے وقتوں‘ کی یاد دلاتا ہے جب برطانیہ میں جیم سینڈوچز اور ٹی پارٹیز کا دور دورہ تھا، یعنی یہ دوسری عالمی جنگ کے زمانے کی بات ہے۔ میں نہیں جانتی کیسے، اور دوسری عالمی جنگ کا کون سا زمانہ اتنا دلکش تھا؟ وہ بچے جن کے لیے یہ ٹراڈ وائیوز اپنی زندگیاں مختص کرنا چاہتی ہیں انہیں وہاں سے بازیاب کرایا گیا تھا جب دشمن کی یلغار میں پورے پورے شہر ملیا میٹ کر دیے گئے تھے اور ان کے شوہر جن سے وہ مرتے دم تک وفادار رہیں اسی جنگ کا لقمہ بن گئے تھے۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ ایک ایسا دور بھی تھا جس میں خواتین نے گھر چلانے کا محاذ بھی سنبھال رکھا تھا۔ انہوں نے اپنی گھر کی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر اپنے شوہر کا کردار ادا کرنا شروع کیا تھا اور بڑی تعداد میں ملازمت کرنے نکلی تھیں۔ یہ وہی جنگ تھی جس نے فیمینزم کی دوسری لہر کے اٹھنے میں کردار ادا کیا تھا اور جب خواتین کو اندازہ ہوا تھا کہ وہ صرف گھر میں رہنے کی نسبت بہت زیادہ کردار ادا کرنے کی اہل ہیں۔ تو اسی طرح خود کو حقیقی ٹراڈ وائف (مذکورہ گروپ کی رکن) ثابت کرتے ہوئے اور اپنے شوہر کی خدمت کرنے کے لیے کیا آپ کو کام نہیں کرنا چاہیے؟
ایک نکتہ جو میں واضح کرنا چاہوں گی اس سے پہلے کہ مجھ پر آن لائن گالیوں کی بوچھاڑ ہو جائے، وہ یہ ہے کہ یہ خواتین کا ہی اختیار ہے کہ وہ گھر میں رہنا چاہتی ہیں یا گھر سے باہر کسی بھی شعبے میں کام کرنا چاہتی ہیں، لیکن اس بارے میں ہم بعد میں بات کریں گے۔
اس تمام ’تحریک‘ کا سب سے حیران کن حصہ ان خواتین کی جانب سے کیا جانے والا ’روایت‘ کا ذکر ہے۔ یہ خواتین ایسا ظاہر کر رہی ہیں کہ یہ سب کچھ فطری ہے اور انہیں یہ رویہ سکھایا نہیں گیا۔
جیسا کہ سائمون ڈی بی ووئر کی مشہور کہاوت ہے ’ایک عورت پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہ بنتی ہے۔‘
خواتین کے گھر پر رہنے، صفائی کرنے اور جرابیں دھونے کی کوئی فطری یا بائیولوجیکل وجہ نہیں ہے۔
گھر میں شام چھ بجے تک کھانا تیار کر کے میز پر رکھنے، ازدواجی رشتوں میں ’مخلص‘ رہنے یا پرہیزگار ہونے میں کچھ بھی فیمنن نہیں ہے۔ ’فیمنزم‘ کا یہ خیال مکمل طور پر مصنوعی ہے، روایات جو ہماری ذات میں گڑ چکی ہیں اور وہ رویے جو ہمیں سکھائے گئے ہیں وہ ہزاروں سال سے پدرشاہی نے ہم پر مسلط کر رکھے ہیں۔ کیا ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ بچا بھی ہے جب مردوں نے طویل عرصہ پہلے ہی یہ سب طے کر رکھا ہے؟
اس گروپ (ٹراڈ وائف) سے تعلق رکھنے والی کئی خواتین نے نو سے پانچ تک کام کرنے کے بعد گھر واپس آنے، بچوں کا خیال رکھنے اور گھر کا کام کرنے کو بناوٹی قرار دیا ہے۔
انھوں نے تسلیم کیا ہے کہ کئی ہفتے تک (باہر رہ کر کام کرنے کا) دباؤ برداشت کرنے بعد گھر رہنے کا خیال، کوکیز بناتے ہوئے پسندیدہ موسیقی وغیرہ سننا ایک دلچسپ زندگی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اگر ہم حقیقی طور پر روایات پر عمل کرتے ہیں تو کیا ہمھیں ہمارے ووٹ کو خدا حافظ نہیں کہہ دینا چاہیے؟ اور اس وقت میں واپس چلے جانا چاہیےاور جب عورتوں کو بے جان مال کی طرح بیچا جاتا تھا اور جب شوہروں کو اپنی بیویوں کا ریپ کرنے کی قانوناً اجازت تھی؟
اگر اس تحریک کے پیچھے یہی شکایات ہیں تو یہ جاننا دلچسپ ہو گا کہ پدرشاہی نظام کے سامنے شکست تسلیم کرنے کے بعد کیا خواتین کے اس گروہ نے یہ بات یقینی بنا لی ہے کہ وہ غیر مساوی تنخواہ یا جنسی ہراسانی جیسے مسائل کا سامنا کرنے کے بعد گھر واپس آنے اور روزمرہ کے کام میں واقعی دلچسپی بحال رکھ سکتی ہیں؟
ایسے حالات میں ہار نہ ماننے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
اب بات کرتے ہیں چوائس یعنی پسند کی: یہ وہ شیریں لفظ ہے جو فیمنزم کے بارے میں کی جانے گفتگو میں بار بار استعمال ہوتا ہے۔ فیمینزم کو صرف پسند تک محدود رکھنا ایک تھکا ہوا اور طویل عرصے سے جھٹلایا ہوا خیال ہے جو فیمنزم کی بنیادوں کو مسلسل کھوکھلا کر رہا ہے۔ ہر وہ قدم جو خواتین لیتی ہیں وہ فیمنسٹ فیصلہ نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح گھریلو خاتون بننا بغاوت نہیں ہے۔ آپ ایک ہی وقت میں باغی اور روایت پسند نہیں ہو سکتے۔ کئی عناصر ہیں جو بتاتے ہیں کہ گھر پر رہنا کئی خواتین کی پسند نہیں ہوتی ایسا کرنا ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ لیکن اس کو پسند قرار دینا اشرافیہ کی سوچ ہے اور یہ خواتین کو کوئی کریڈٹ نہیں دیتی۔
کچھ افراد نے ٹراڈ وائیوز جیسے گروپوں کا رجحان بڑھنے کو مردوں کے غلبے والی انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے عروج سے جوڑا ہے (جو خواتین کی نیم خود مختاری کو ختم کرنے کی اپنی خواہش کو خفیہ نہیں رکھتے۔) اس کا موازنہ جرمنی کی نازی حکومت اور اس پروپیگنڈے کے ساتھ بھی کیا جا رہا ہے کہ ’خواتین کا تعلق صرف گھر سے ہے۔‘ کئی ٹراڈ وائیوز نے اس مشورے کو رد کر دیا ہے۔ ان میں سے بہت سوں، بالخصوص ایک خاتون جنھوں نے بی بی سی سے بات کی ہے اور انہوں نے جو زبان استعمال کی ہے، اس کے بعد یہ دیکھنا کافی آسان ہے کہ یہ نازیوں کے ساتھ موازنہ اصل میں کیوں کیا جا رہا ہے۔
ایلینا کیٹ پیٹیٹ، جو دی ڈارلنگ اکیڈمی نامی یوٹیوب چینل چلاتی ہیں، انہوں نے براڈ کاسٹر کو بتایا کہ جب وہ اپنے شوہر سے ملیں تو انھوں نے کہا ’میں جانتا ہوں کہ آپ ایسا مرد چاہتی ہیں جو آپ کا خیال رکھے اور آپ کو تحفظ کا احساس دلائے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ’بہت نرمی سے خود کو ایسے انسان کے طور پر پیش کیا۔‘ اس فیمینزم کا کون سا حصہ ہے جس میں ان کے شوہر نے انہیں اپنی پسند چننے کا حق دیا ہو؟
رواں ماہ ’میک ویمن گریٹ اگین‘ نامی کانفرنس خبروں میں سامنے آئی ہے، جس میں وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ خواتین کو سکھائیں گے کہ وہ کیسے ’مثالی بیوی‘ بن سکتی ہیں اور ‘حاملہ ہو کر لاتعداد بچے پیدا کر سکتی ہیں۔‘ اشتہار میں کہا گیا ہے کہ ’اب آپ کو فمینسٹوں کے جارحانہ اور پریشان کن رویے سے ہار ماننے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی بطور خاتون اپنے قدیم اور حیاتیاتی کردار کے خلاف جانے کی ضرورت ہے۔ مرد آپ کی مدد کو آ چکے ہیں تاکہ خواتین کو دوبارہ عظیم بنایا جا سکے۔‘
یہ یاد رہے کہ خواتین بھی مردوں جتنی ہی عورت دشمن ہو سکتی ہیں۔ یہ انتہا پسند جو نرمی کا لبادہ اوڑھے، غیر مشتعل گھریلو خواتین نظر آرہی ہیں دراصل ان سے بھی آپ کو اتنا ہی خطرہ ہے۔
© The Independent