پاکستان میں آئے دن بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ شہریوں کا خیال تھا کہ پنجاب کے ضلع قصور میں زینب قتل کیس میں مجرم کو پھانسی کے بعد شاید یہ سلسلہ تھم جائے تاہم زینب کیس کے بعد بھی خیبر پختونخوا سمیت دوسرے صوبوں سے تواتر کے ساتھ بچوں سے زیادتی اور قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
ان میں حالیہ نوشہرہ میں آٹھ سالہ عوض نور کا قتل ہے، جسے کچھ دن پہلے مبینہ طور پر ریپ کے بعد پانی کی ٹینکی میں ڈبو کر قتل کر دیا گیا۔
ملزمان کون ہیں؟
عوض نور کے قتل کیس کے دو ملزمان میں سے ایک کا نام رفیق جبکہ دوسرے کا نام ابدار ہے۔ عوض نور کے ماموں آصف خان نے گذشتہ روز انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ملزمان محلے میں ہی رہتے ہیں اور ان کی آپس میں کسی قسم کی رشتہ داری نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دشمنی۔
آصف نے بتایا کہ رفیق ٹیکسی ڈرائیور جبکہ ابدار مزدوری کرتے ہیں اور دونوں ایک ہی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ آصف کے مطابق چونکہ دونوں ملزمان ایک ہی گاؤں کے تھے تو ان سے دعا سلام ہوتی رہتی تھی، لیکن انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایسا قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔
آصف خان نے بتایا: ’رفیق کا تعلق اوسط گھرانے سے جبکہ ابدار غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، جو ہمسائے کے دیے ہوئے گھر میں رہتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ دونوں ملزمان کے رشتہ دار ڈر کی وجہ سے گاؤں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
عام تاثر یہ ہے کہ ملک میں بچوں سے زیادتی کے بارے میں قوانین موجود نہیں لہٰذا ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو ملک میں جنسی تشدد اور قتل کے بارے میں قوانین رائج ہیں اور زینب قتل کیس سمیت بچوں سے ریپ کے دوسرے کیسز میں ان قوانین کا اطلاق بھی ہوا لیکن پھر بھی یہ واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے کچھ سماجی کارکنوں سے بات کی تاکہ جان سکیں کہ کیا صرف قوانین سے ہی اس قسم کے واقعات کی روک تھام ممکن ہے یا پھر حکومت اور معاشرے کو کچھ اور اقدام بھی اٹھانے ہوں گے۔
بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے تنظیموں کی نمائندہ نیٹ ورک چائلڈ رائٹس موومنٹ پاکستان کے نیشنل کوآرڈینیٹر ممتاز گوہر سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ان واقعات کی بنیادی وجہ زیادتی کرنے والے پر کم توجہ ہے کیونکہ آئے روز جب یہ واقعات ہوتے ہیں تو ہم زیادتی کرنے والے ملزم پر تحقیق نہیں کرتے کہ انھوں نے ایسی گھناؤنی حرکت کیسے اور کیوں کی۔
’زیادتی کرنے والے اور جن سے زیادتی ہوتی ہے، دونوں پر توجہ دینا اہم ہے۔ زیادتی کرنے والے شخص کے ماضی اور حال دونوں کو پرکھنا چاہیے تاکہ ریپ کی وجہ سامنے آ جائے اور اسی وقت ہی ان واقعات کی روک تھام کے لیے کام کیا جا سکتا ہے۔‘
’بچوں میں نہ کہنے کی جرات ڈالیں‘
ممتاز گوہر نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں ایک کلچر ہے کہ ہم بچوں کو بہت زیادہ تابع دار بنانا چاہتے ہیں اور ان میں کسی کو بھی ’نہ ‘کرنے کی جرات نہیں ڈالتے اور پھر ہوتا یہ ہے کہ وہ کسی بھی زیادتی کرنے والے کی نرغے میں آجاتے ہیں۔
’ہم بچوں کے حوالے سے بہت لاپروا ہیں۔ ان کیسز میں ایک ٹرینڈ یہ سامنے آیا کہ زیادتی کرنے والے زیادہ تر رشتہ دار ہوتے ہیں اور ہم اپنے رشتہ داروں کو اپنے بچوں کے ساتھ ایسے آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تو یہ بھی ہوتا ہے کے بچے کے گھر اگر کوئی رشتہ دار آجائے تو بچہ رشتہ داروں کے ساتھ سلا دیتے ہیں۔‘
بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم ’ساحل‘ کی 2019 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق جنوری سے جون 2019 تک بچوں کے ریپ کے1304 واقعات سامنے آئے جن میں سے 614 کیسز میں زیادتی کرنے والا بچے کا رشتہ دار تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ کے مطابق 203 واقعات میں بچے کو اپنے ہی گھر میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 300 واقعات میں رشتہ دار نے بچے کو اپنے گھر میں زیادتی کا نشانہ بنایا، 12 مدرسے میں نشانہ بنے، تین کو ملزم کی کام کرنے والی جگہ میں نشانہ بنایا گیا، جبکہ 162 واقعات کھلی جگہ جیسا کہ کھیت، گلی اور جنگلوں میں پیش آئے۔
نوشہرہ قتل کیس میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ملزم بچی کو ورغلا کر اپنے ساتھ لے گیا۔ ڈی پی او نوشہرہ کاشف ذوالفقار کے مطابق ملزم ابدار نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ عوض نور کو چمک کی بوتل کا لالچ دے کر کھیتوں کی جانب لے گئے۔
جب بچی نے چیخ و پکار شروع کردی تو ملزم نے اسے پانی کے ٹینکی میں پھینک کر قتل کر دیا۔ ملزم نے ریپ کے الزامات کی تردید کی لیکن کہا کہ انھوں نے کوشش ضرور کی تھی۔ انھوں نے مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف کیا کہ ان کی بچی کے ماموں سے لڑائی ہوئی تھی۔
ڈی پی او نوشہرہ کا کہنا ہے ابدار اور بچی کے ماموں آصف کے درمیان بھی ایک جنسی ہسٹری ہے، تاہم انھوں نے مزید وضاحت نہیں کی۔
بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے ممتاز گوہر نے بتایا: ’ہمارے ملک میں پرائمری سائیکیٹرک نظام کی ضرورت ہے تاکہ سکول ہی سے بچوں کو تربیت ملنا شروع ہو جائے کیونکہ ریپ ہمارے معاشرے میں ایک ممنوع موضوع ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو کم عمری سے ہی سمجھایا جائے کہ’ گُڈ ٹچ‘ اور ’بیڈ ٹچ‘ کیا ہوتا ہے، کن حالات میں وہ کسی کو یا کسی کا کہا گیا کام کرنے سے انکار کریں اور یہ کہ کسی سے کچھ لے کر نہ کھائیں۔
ممتاز نے بتایا اگر کسی بچے کے ساتھ زیادتی ہوجائے تو ہمارے معاشرے میں اسے چھپایا جاتا ہے اس بارے میں بات نہیں ہوتی، ایسے میں متاثرہ بچہ بڑا ہوکر اسی کرب کے ساتھ جڑی زندگی گزارتا ہے۔ کچھ کیسز میں ایسا بھی ہوا کہ متاثرے بچے نے بڑا ہو کر دوسرے بچوں کو نشانہ بنایا۔
ریپ کے واقعات پر تحقیق کی کمی
پشاور میں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے عمران ٹکر سمجھتے ہے کہ پاکستان میں اس قسم کے واقعات پر تعلیمی تحقیق کی بہت کمی ہے۔
عمران ٹکر کے مطابق: ’آپ اگر دیکھیں تو زینب قتل کیس میں کسی قسم کی کوئی ریسرچ سامنے نہیں آئی کہ مجرم نے زیادتی کیوں کی اور اس کے پیچھے کیا عوامل تھے اور نہ کسی نے مجرم کے ماضی کو جانچا تاکہ معلوم ہو سکے کہ ریپ اور اس کے بعد زینب کو قتل کرنے کی کیا وجہ تھی۔
’نہ حکومت کی جانب سے اس پر کسی قسم کی تحقیق کی جاتی ہے اور نہ آزاد ادارے اس پر کام کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے بھی بہت کوتاہیاں ہیں کیونکہ اگر خیبر پختونخوا کی بات کریں تو یہاں چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2010 سے موجود ہے لیکن اس کے تحت اضلاع میں بننے والی چائلڈ پروٹیکشن کمیٹیاں غیر فعال ہیں۔ ’اس کا مطلب ہے کہ انھی کمیٹیوں کے تحت بننے والے تحصیل اور گاؤں کے درجے کی کمیٹیاں سرے سے ہی نہیں۔ ایسے میں ریپ اورجرائم کے بارے میں آگاہی لوگوں تک پہنچنا ممکن نہیں۔‘
جنسی تعلیم کی ضرورت
ممتاز گوہر کہتے ہیں کہ پاکستان میں لوگ سیکس ایجوکیشن (جنسی تعلیم) کا نام سننے کو تیار نہیں اور سکولوں کی سطح پر بچوں کو اس بارے میں کسی قسم کی تعلیم نہیں دی جاتی لیکن ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا اگر لوگوں کو جنسی تعلیم کے نام سے مسئلہ ہے تو حکومت اس نام کو استعمال نہ کرے اور بیشک اس کا نام چائلد پروٹیکشن ایجوکیشن رکھ دے تاکہ کم از کم بچوں کو بنیادی چیزوں کا علم ہو کہ وہ کس طرح خود کو ریپ سے بچا سکتے ہیں۔