جمہوری نظام میں پارلیمان وہ ادارہ ہیں جہاں عوام اپنے نمائندے نامزد کر سکیں، جو ان کے نام پر اختیار استعمال کرتے ہوئے قانون سازی اور فیصلے کریں تاکہ ریاست عوامی فلاحی کام کر سکے۔
نمائندوں کی نامزدگی الیکشن کے ذریعے ہوتی ہے۔ پارلیمانی ممبران جب حلف لیتے ہیں تو وہ یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ آئین کے وفادار رہیں گے اور پارٹی یا شخصی مفاد کی بجائے عوامی اور قومی مفاد کو ترجیح دیں گے۔ جس پارلیمان کا تصور میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے، وہ کہاں ہے؟
پارلیمان کی تشکیل کا سب سے پہلا مرحلہ ہوتا ہے انتخابات تاکہ عوام اپنے ایجنٹ منتخب کریں۔ یہاں فیصل واوڈا کی مثال لیتے ہیں۔ میں بھی اس حلقے میں پی ٹی آئی کی طرف سے امیدوار تھا لیکن پارٹی کے مالک مجھ سے اتنے خفا تھے کہ میری صورت تک دیکھنے کے روا دار نہیں تھے۔ میرا قصور یہ تھا کہ پارٹی کے اندر میں نے جمہوری روایات قائم کرنے پر زور دیا جو پارٹی مالک اور انجینیئرز دونوں کو قبول نہیں تھا، چنانچہ فیصل واوڈا صاحب پارٹی کے امیدوار قرار پائے اور یہاں پہلی خرابی پیدا ہوئی اور اس بات کا بیج بویا گیا کہ عوامی نمائندہ دراصل پارٹی مالک کا نمائندہ ہوگا۔
یہ صورت حال تمام پارٹیوں میں ہے، جس کا مظاہرہ ابھی چند دن پہلے آپ نے دیکھا ہے کہ تمام پارلیمان دراصل صرف پانچ پارٹی مالکان اور ایک انجینیئرنگ فرم کے سربراہ کے تابع ہے۔ جب بھی ان چند لوگوں کے مفادات سامنے آتے ہیں تو یہ سب متحد ہو کر ایک پیج پر آ جاتے ہیں لیکن جب عوامی مسائل کی بات ہو تو ان کے درمیان کے تضادات ابھر آتے ہیں۔
جب فیصل واوڈا نے نامزدگی کے کاغذات جمع کرائے تو ریٹرننگ آفیسر کی یہ ذمہ داری تھی کہ اس بات کی توثیق کرے کہ دوہری شہریت نہیں ہے اور نہ کبھی کرپشن کی ہے۔ واوڈا مبینہ طور پر دوہری شہریت بھی رکھتے تھے اور کچھ بینکوں کے قرضے بھی واپس نہیں کیے، لیکن چونکہ وہ انجینیئرز کے پسندیدہ امیدوار تھے تو کسی کی مجال کہ انہیں روکے، چنانچہ ان کے کاغذات منظور ہو گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں دوسری خرابی پیدا ہوئی کہ ایسے لوگوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملی جو اخلاقی طور پر اس کے اہل نہیں تھے۔ یہی حال پورے پاکستان میں تھا۔ جن افسروں نے یہ بدعنوانی کی پاکستان کی تاریخ میں آج تک انہیں سزا نہیں ملی۔ الیکشن میں دھاندلی کو ہم کرپشن ہی نہیں سمجھتے جبکہ یہی تمام کرپشن کی جڑ ہے۔
اب آگے چلتے ہیں انتخابی مہم کے دوران، واوڈا صاحب وہ واحد امیدوار تھے جن کے آگے اور پیچھے رینجرز کے گارڈز ہوتے تھے جبکہ کسی اور امیدوار کو یہ سہولت میسر نہیں تھی۔ چنانچہ پورے حلقے کو یہ اطلاع ہوگئی کہ وہ کن کے پسندیدہ امیدوار ہیں۔ علاقے کے وہ لوگ جو ووٹ بیچتے ہیں انہیں معلوم ہوگیا کہ کس کو دینا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس اور دوسرے حکومتی انتظامی ادارے بھی واوڈا صاحب کے لیے حاضر تھے۔ جب ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو رات نو بجے پولنگ سٹیشن میں موجود سب لوگوں کو نکال دیا گیا اور جب رات گئے نتیجہ آیا تو واوڈا صاحب سات سو ووٹوں سے کامیاب ہوئے جبکہ دس ہزار ووٹ مسترد ہوئے۔ یعنی عوامی مینڈیٹ کا تو پتہ نہیں لیکن انجینیئرنگ کا شاہکار تخلیق میں آیا جس نے اپنے خالق کا پچھلے دنوں شکریہ ادا کیا۔
اب میں آپ سے دوبار پوچھتا ہوں اگر ملک میں جمہوریت ہے تو پارلیمان کہاں ہے؟ جس عمارت پر ہم پارلیمان ہونے کی تہمت لگا رہے ہیں اس میں وہ لوگ موجود نہیں ہیں جو عوامی مینڈیٹ لے کر آئے ہیں اور نہ ان کی وفاداری عوام کے ساتھ ہے۔ موجودہ جمہوریہ میں پارلیمان نہیں ہے بلکہ چند لوگ ہیں جو پارٹیوں اور اداروں کے سربراہ ہیں اور ان کے تنخواہ دار ہیں۔ ان کا عوام اور اس کے مینڈیٹ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
جب تک یہ ناکام جمہوریہ رہے گی، جب تک ہمارا ملک آزاد نہیں ہوگا اور نہ ہمارے مسائل حل ہوں گے۔ نئے الیکشن، نیا وزیراعلیٰ اور نیا وزیراعظم حل نہیں ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے۔ ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔