ترکی پارلیمنٹ میں ایک قانون پیش کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے جس کے تحت 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کے ساتھ جنسی عمل کرنے والے ان لوگوں کو سزا نہیں ہوگی جو متاثرہ لڑکیوں سے شادی کر لیں گے۔
’ریپ کرنے والے سے شادی‘ کا متنازع بل جسے قانون ساز جنوری کے آخر تک پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اس سے کی وجہ سے ملک میں خواتین کے حقوق کے لیے مہم چلانے والوں میں غصہ پھیل گیا ہے۔
ناقدین کا مؤقف ہے کہ قانون، جسے حزب اختلاف کی ڈیموکریٹ پارٹی (ایچ ڈی پی) روکنے کے لیے حکومت پر زور دے رہی ہے اس کے تحت نہ صرف بچوں کی شادی اور ریپ کو قانونی تحفظ مل جائے گا بلکہ اس سے بچوں سے بدسلوکی اور ان کے جنسی استحصال کی راہ بھی ہموار ہو گی۔
2016 میں قومی اور عالمی سطح پر غصے کے اظہار کے بعد ایک ایسا ہی بل منظور نہیں کیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت مردوں کو صرف اس صورت میں معافی مل جاتی کہ وہ ’زبردستی یا دھمکی‘ کے بغیر جنسی عمل انجام دیتے۔
اقوام متحدہ کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ مسودہ قانون کی وجہ سے بچوں سے بدسلوکی کی کھلی چھٹی مل جائے اور متاثرین کو اپنے اوپر حملہ آور ہونے والے کے ہاتھوں مزید بدسلوکی اور تکلیف کے تجربے گزرنا پڑے گا۔
’ریپ کرنے والے سے شادی‘کے بل دنیا بھر میں دیکھے گئے ہیں اور انہیں خاندان کی’عزت‘کے نام پر آگے لایا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ایکوالٹی ناؤ‘نامی غیرسرکاری تنظیم خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے کو فروغ دینے سے سرگرم عمل ہے۔ اس تنظیم سے وابستہ فعال کارکن سعود ابو دیّاہ مشرق وسطی، شمالی افریقہ، افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے مہارت رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ’دہلا‘دینے والا ہے کہ سیاست دان ایسا بل منظور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں’مجرموں کو بچوں کے جنسی استحصال کی کھلی چھٹی دے گئی ہے۔‘
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’میں ترکی میں خواتین کے حقوق کے لیے مہم چلانے والے ان لوگوں کے دلیرانہ کام کو سراہتی ہوں جو اس امتیازی بل کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں اوران رجعت پسند قوتوں کو دوبارہ پیچھے دھکیل رہے ہیں جو لڑکیوں کو اس وقت حاصل قانون تحفظ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کا’ریپ کرنے والے سے شادی بل‘کی قانونی دفعات پورے مشرق اور شمالی امریکہ کے ملکوں کے قانون کی کتابوں کی موجود ہیں۔
’خواتین کے حقوق کے لیے برسوں سے مہم چلانے والے کارکنوں اور قانون سازوں کا شکریہ کہ مصر، اردن، لبنان، مراکش، تیونس اور فلسطین سب نے حالیہ برسوں میں قانون میں موجود خامیاں دور کر دی ہیں۔ ایسا قانون جس سے خواتین کے حقوق اور انہیں حاصل تحفظ کو نقصان پہنچے، اسے متعارف کرانے کی بجائے ترکی کے قانونی سازوں کو چاہیے کہ وہ صنفی امتیاز پر مبنی قوانین کی تنسیخ کے لیے ہونے والی کوششوں پر توجہ دیں۔‘
ترکی میں رضامندی کے لیے قانونی عمر 18 برس ہے۔ بچوں کی شادی سے متعلق 2018 کی ایک حکومتی رپورٹ کے اندازے کے مطابق گذشتہ عشرے میں چار لاکھ 82 ہزار لڑکیوں کی شادیاں کی گئیں۔
ترکی میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد عام ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 38 فیصد ترک خواتین پارٹنر کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا نشانہ بن چکی ہیں۔
مہم چلانے والے’وی وِل سٹاپ فیمی سائیڈ‘نامی ایک گروپ کے اندازے کے مطابق 2017 میں پارٹنر یا خاندان کے رکن کی جانب سے تقریباً 409 خواتین کو قتل کیا گیا۔ خواتین کے قتل کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے کے برسوں میں 237 خواتین کو قتل کیا گیا تھا۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے 2014 میں استبول میں ہونے والی ایک سربراہ کانفرنس میں کہا تھا کہ مردوں اور خواتین کے درمیان برابری’ فطرت کے خلاف‘ ہے۔
عالمی رہنما نے کہا: ’آپ خواتین اور مردوں کو برابری کی سطح پر نہیں رکھ سکتے۔ یہ فطرت کے خلاف ہے۔‘
انہوں نے 2016 میں خواتین پر زور دیا کہ ان کے کم از کم تین بچے ہوں اور مؤقف اختیار کیا کہ ایک خاتون کی زندگی بچوں کے بغیر’نامکمل‘ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک ایسی خاتون جو کہتی ہیں کہ’چونکہ میں ملازمت کرتی ہوں میں ماں نہیں بنوں گی۔ وہ اصل میں اپنے عورت ہونے کا انکار کر رہی ہوتی ہیں۔‘ ’وہ خاتون جو ماں بننے کو مسترد کر دیتی ہیں، جو گھر میں رہنے سے گریز کرتی ہیں، چاہے ان کی پیشہ ورانہ زندگی کامیاب ہی کیوں نہ ہو، ایسی خاتون کی زندگی میں کمی ہوتی ہے وہ نامکمل ہوتی ہیں۔‘
© The Independent