1980 کی دہائی میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹیسٹ میچ ہوا کرتے تو عمران خان کا طوطی بولتا تھا۔ وہ بھارتی ٹیل اینڈرز کے انتظار میں رہتے تھے اورجیسے ہی دلیپ دوشی بیٹنگ کے لیے آتے تو اچھی خاصی بولنگ کرتے اقبال قاسم کو ہٹا کر خود آجاتے اور اپنی تیز سوئنگ ہوتی ہوئی اِن کٹر گیند سے دوشی کو فورا آؤٹ کردیتے۔
شاید 40 سال کے محمد حفیظ کے لیے بنگلہ دیش بھی ایک دلیپ دوشی ہے، وہ بھی بنگلہ دیش کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
2003 میں بنگلہ دیش کے خلاف اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے حفیظ نے بنگال ٹائیگرز کے خلاف ہمیشہ اچھی کارکردگی دکھائی۔ انھوں نے پہلے ہی میچ میں سنچری بناکر دنیا کی توجہ مبذول کرالی تھی ۔
اس وقت کے سلیکٹر عامر سہیل نے حفیظ کو اپنی دریافت قرار دیا تھا۔ عامر سہیل کے کلب دھرم پورہ جیم خانہ کے لیے کھیلنے والے حفیظ شروع سے ہی عامر سہیل کے منظور نظر تھے اور جب 2003 ورلڈکپ میں شرم ناک شکست کے بعد ٹیم میں بڑی تبدیلیاں ہوئیں تو حفیظ ٹیم میں آگئے اور اوپننگ سنبھال لی۔
حفیظ ہمیشہ سے بولنگ نہیں کرتے تھے لیکن جب سپنرز سے ایک روزہ میچ میں بولنگ شروع کرنے کا رواج عام ہوا تو حفیظ ٹیم کی ضرورت بن گئے۔ نئی سفید گیند سے جب وہ ہاتھ روک کر پھینکتے ہیں تو بلے باز کی ٹائمنگ میں فرق آجاتا ہے۔وہ اس طرح کی بولنگ کے ماہر تھے لیکن گیند پھینکتے وقت بازو کا مطلوبہ خم نہ ہونے کی وجہ سے کئی بار پابندی کا شکار ہوئے ، جس سے ان کی بولنگ بتدریج ختم ہوتی چلی گئی۔
بیٹنگ میں ان کی کارکردگی نشیب وفراز کا شکار ہے۔ پاکستان سے باہر تیز وکٹوں پر ان کی تکنیک پر بے تحاشا تنقید ہوتی رہی ہے۔ جنوبی افریقہ کے پیسر ڈیل سٹین کا نام تو ان کی وجہ تضحیک بن چکا ہے۔
تاہم حفیظ کی کچھ اننگز کسی بھی طرح بڑے بلے باز وں سے کم نہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں تو ان کی بیٹنگ نے کوئی بڑے کارنامے انجام نہیں دیے لیکن وہ پاکستان کے گنے چنے ڈبل سنچری بلے بازوں کے کلب کا حصہ ہیں، البتہ ایک روزہ کرکٹ اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں وہ لازم و ملزوم ہیں۔ 91 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں تقریباً 2000 رنز بنانے والے حفیظ ابتدا سے پاکستان ٹیم کے رکن ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ ہر انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے والے ملک کے خلاف بڑے سکور اور نپی تلی بولنگ سے وکٹیں بھی لے چکے ہیں۔
بنگلہ دیش حفیظ کا ہمیشہ سے پسندیدہ حریف ہے کیونکہ وہ بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں کئی زبردست اننگز کھیل کر پاکستان کو فاتح بنوانے میں اہم کردار ادا کرچکے ہیں۔
موجودہ سیریز میں ان کی شمولیت پر ماہرین نے کافی اعتراضات کیے تھے اور سوال کیاتھا کہ کیا 40 سالہ کرکٹر پاکستان کی نوجوان ٹیم اور کپتان کے ساتھ ایڈجسٹ کرسکتا ہے اور کیا ورلڈ کپ تک ان کی فارم باقی رہے گی؟
ماہرین کی تنقید اور میڈیا کے سوالات سے پریشان حفیظ کے پاس کوئی واضح جواب تو نہیں تھا لیکن سیریزسے قبل صرف ایک بات کہی تھی کہ میدان میں پرفارمنس سارے سوالات کاجواب ہوگی۔
بولنگ پر پابندی اور پچھلے کئی مہینوں سے واجبی بیٹنگ کارکردگی ان کی سلیکشن پر سوال اٹھارہی تھی۔ سری لنکا اور آسٹریلیا کے خلاف ان کو ڈراپ کرکے بورڈ نے بھی ہری جھنڈی دکھادی تھی۔
وہ ٹی ٹوئنٹی لیگز میں بھی بجھے بجھے سے تھے، نہ بڑی اننگز کھیلی اور نہ وکٹیں مل سکیں تو بنگلہ دیش کے خلاف ان کی شمولیت دیوانے کا خواب تو ہوسکتا تھا لیکن عملی طور پر ناممکن۔
ایسے میں کپتان بابر اعظم نے حالیہ شکستوں سے گھبرا کر حفیظ کی واپسی کا مطالبہ کردیا جس طرح حفیظ نے 2014 ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں شعیب ملک کی واپسی کا مطالبہ کیاتھا۔
حفیظ کو تو یہ دورہ ایسے چاہیے تھا جیسے ڈوبتے کو کنارا اور پھر وہی ہوا ۔ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنگلہ دیشی بولروں پر وہ ٹوٹ پڑے ۔سیریز کے پہلے میچ میں وکٹ کی مدد سے جو بنگلہ دیشی بولر مشکل ثابت ہورہے تھے ،دوسرے میچ میں حفیظ کے ٹیکسٹ بک شاٹ سے نہ بچ سکے۔ وکٹ جہاں سیدھی کھیلی وہیں حفیظ بھی خوب کھیلے۔ 49 گیندوں پر ناقابل شکست 67 رنز ان کی اہمیت اور اہلیت کا اعلان کررہے تھے ،ان کی اننگز نو چوکوں اور ایک چھکے سے مزین تھی۔
محمد حفیظ اور بابر اعظم کی رفاقت نے پاکستان کو تین اوورز قبل ہی جیت کے ہاروں سے سجادیا۔ دونوں نے زبردست بلے بازی کرتے ہوئے قذافی سٹیڈیم میں ہزاروں تماشائیوں کو خوش تو کیا ہی لیکن اس سے زیادہ ڈریسنگ روم میں مضطرب ہیڈ کوچ مصباح الحق کو بھی مطمئن کردیا۔
’پروفیسر‘ کے نام سے مشہور محمد حفیظ، جن پر پاکستان کرکٹ میں سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے، ایک بار پھر خبروں کی زینت ہیں۔
تاہم آج ان پر کسی شعیب اختر کے باؤنسر سرخیاں نہیں بلکہ خود ان کے اپنے الفاظ ہیں جو بنگلہ دیش کے خلاف دوسرے میچ میں فتح گر اننگز کھیل کر اپنے مخا لفین سے کہہ رہے ہیں۔اب بتاؤ کیا میں بوڑھا ہوگیا ہوں؟