ڈرامہ ’میرے پاس تم ہو‘ کی آخری قسط میں غیر متوقع کلائمکس نے ناظرین کی اکثریت کو مایوس کیا۔ میں اس کو دانستہ حکومت سے نہیں جوڑ رہا مگر مماثلت تو ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے بڑی تگ و دو کے بعد الیکشن شو میں رش لیا اور حکومت پائی، پر90 دن میں مسائل حل کرنے کے دعوے داروں نے جب ٹوپی سے خرگوش نکالنے کی بجائے مہنگائی کا جن نکالا تو عوام بھونچکے رہ گئے۔
آئی ایم ایف کے کہنے پر مہنگائی کے جن کو بوتل سے نہ صرف نکالا گیا بلکہ عوام پر چھوڑ بھی دیا گیا۔ اب صرف چیخیں ہیں مہنگائی کے بوجھ تلے دب جانے والی عوام کی۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ان کی تنخواہ ان کے خرچوں کے لیے کم ہے۔ یاد رہے خان صاحب کی تنخواہ کے علاوہ ان کے یوٹیلیٹی بلز، علاج معالجے اور پٹرول کا خرچہ ریاست کے ذمے ہے۔ یعنیٰ انھیں صرف کھانے اور ستر پوشی کے لیے پیسے خرچ کرنے ہیں اور ان کی بنیادی تنخواہ دو لاکھ روپے ہے۔ اس کے علاوہ وہ لا تعداد الاؤنسز بھی وصول کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جبکہ عام پاکستانی کی اوسط آمدنی 15 سے 18 ہزار روپے کے درمیان ہے جس میں اس کے گھر کا کرایہ، بچوں کے اسکول کی فیسیں اور یوٹیلیٹی بلز کے علاوہ علاج اور کھانے کا خرچ بھی شامل ہے۔
جنوری کے آخری ہفتے میں وفاقی ادارہ برائے شماریات نے صرف کھانے کی اشیا کے جو اعدادوشمار جاری کیے ہیں وہ وزیر اعظم کے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں کہ اس برس مہنگائی میں کمی آئے گی۔
اس پر ستم یہ کہ اپوزیشن جماعتیں بجائے اس کے کہ عوام کے ساتھ کھڑی ہوں، وہ اس امید پر ہاتھ باندھے کھڑی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ جیسے ہی اس حکومت سے منہ موڑے تو نگاہ کرم ان پر پڑ جائے۔
سوال یہ ہے کہ اب حل کیا ہے۔ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں اور اگر ہے بھی تو وہ بتانے سے ڈر رہا ہے کیونکہ آگے صرف بے یقینی، مایوسی اور بے چینی ہے۔
ادھر عوامی مسائل سے قطع تعلق میڈیا ان چہ میگوئیوں میں مصروف ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گے یا نہیں، جام کمال اور محمود خان کا کیا ہو گا۔
تمام تر معاشی اندازے بتا رہے ہیں کہ یہ سال عوام پر گذشتہ برس سے زیادہ بھاری ہو گا۔ کیا حکومت عوامی احتجاج کا سامنا کر پائے گی؟ اس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں جو دھرنے سے لے کر ووٹ بینک بھرنے میں ماسٹر ہیں۔
اگر عوامی دباؤ زیادہ بڑھتا ہے اور معیشت کک سٹارٹ نہیں ہوتی تو تبدیلی آئے گی نہیں بلکہ جائے گی۔ 60 کی دہائی کے ناسٹیلجیا میں پھنسے فیصلہ سازوں کو بھی اس کا ادراک جلد ہی ہو جائے گا۔