میرا تعلق میڈیا مارکیٹنگ، سیلز اور مینجمنٹ کے شعبے سے ہے۔ عمر کا اک عرصہ اسی شعبے میں گزرا ہے۔ سبق حاصل ہوا کہ کچھ بھی بیچنا ہو یا عوام الناس تک کوئی پیغام پہنچانا مقصود ہو تو اس کے لیے تشہیر ایک انتہائی لازمی امر ہے۔ گواہ ہوں کہ لوگوں نے تشہیر کے سر پر ہی مٹی کو سونا کرکے بیچا اور جنہوں نے تشہیر نہیں کی ان کا سونا بھی مٹی ہوا۔ پیپلز پارٹی کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ کام تو کیے مگر کبھی اس کی درست یا مناسب تشہیر نہ کر پائی۔ میڈیا مینجمنٹ سے نابلد اس پارٹی کی کارکردگی تو ہميشہ بہتر رہی مگر بدقسمتی سے پارٹی کا عمومی تاثر بہت ہی خراب رہا اور وجہ صرف اور صرف بُری میڈیا سٹرٹیجی اور مینجمنٹ اور عدم تشہیر کی پالیسی ہے۔
جس معاشرے میں ایک پراجیکٹ کا کئی بار افتتاح کیا جانا روایت ہو وہاں ایک دن میں پانچ پانچ میگا پراجیکٹس کا افتتاح کرکے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نے لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دیا کہ آپ عوامی بہبود کے کام کر رہے ہیں تو یہ محض آپ کی خام خیالی ہے۔ اس سلسلے ميں سندھ حکومت کی حالیہ مثال آپ کے سامنے ہے۔ ایک اور مثال نيشنل انسٹيٹيوٹ آف كارڈيو ويسكيولر ڈيزيزز کا انتہائی شاندار منصوبہ ہے۔ یہ شاید صحت کے شعبے میں عوامی خدمات کے تو ہر معیار پر پورا اترتا ہی ہے مگر ملک کی اکثریت اس بہترین فلاحی منصوبے کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ نہیں۔ آج بھی سندھ میں صحت کے شعبے کو تنقیدی نگاہ سے ہی دیکھا جاتا ہے۔ نہ جانے پیپلزپارٹی کب اس سادہ سی بات کو سمجھے گی کہ جو دکھتا ہے، وہ بکتا ہے۔
مسلم لیگ ن نے صرف اپنے پراجیکٹس کی تشہیر کی بنیاد پر ہی پنجاب سمیت ملک بھر میں اپنا مثبت تاثر قائم کیا ورنہ عوامی خدمت کے منصوبوں کے معاملے میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی ان سے بہتر ہے اور تحریک انصاف کو تو اس مقام تک پہنچایا ہی صرف اور صرف میڈیا مینجمنٹ کے سر پر گیا ہے۔
پیپلزپارٹی کے کارکنان کو اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ آپ کی پارٹی کی حکومت نے پانچ سال میں ملک کے لیے کچھ نہیں کیا اور ہم میں سے اکثر اس بات کا مدلل جواب نہیں دے پاتے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بدقسمتی سے ہم خود میڈیا کے اس منفی پروپیگنڈے کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے سوچا کہ لوگوں کے سامنے پیپلزپارٹی کی سابقہ وفاقی حکومت کی کارکردگی کا مقدمہ رکھا جائے، باقی فیصلہ انہی کا ہوگا۔
بطور قوم ہماری یادداشت بڑی کمزور ہے اور بڑے سے بڑے سانحات اور واقعات ہم جلد ہی بُھلا دیتے ہیں۔ معیشت پر بات کرنے سے پہلے مناسب ہو گا کہ پیپلزپارٹی کے پانچ سالوں میں ملک کے داخلی اور خارجی حالات پر ایک نظر ڈالی جائے پھر اس کے بعد سیاسی اور معاشی حالات پر بات ہو گی تاکہ ان حالات کے تناظر میں دیگر چیزوں کو دیکھا جا سکے۔
جب پیپلزپارٹی حکومت میں آئی تو اس وقت ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کی خوفناک لہر جاری تھی جو 2009 اور 2010 میں اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ 2008 سے 2013 کے دوران دہشت گردی کے پندرہ سو سے زائد چھوٹے اور پانچ سو سے زائد بڑے واقعات پیش آئے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں 70 ہزار سے زیادہ معصوم شہریوں اور دس ہزار کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس جنگ سے ان پانچ سالوں میں ہونے والے معاشی نقصانات کا تخمینہ تقریباً 100 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سوات، وزیرستان، مالاکنڈ اور دیگرعلاقوں میں آپریشن شروع ہوئے جو درج ذیل ہیں۔ آپریشن شیردل، راہ حق، راہ راست اور راہ نجات۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں ملکی حالات ٹھیک ہونا شروع ہوئے اور 2014 تک ملک سے 70 فیصد دہشت گردی کا خاتمہ ہوا۔ یاد رہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت اس جنگ میں پاک فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
26 نومبر 2011 کو امریکہ نے پاکستان کی سلالہ چیک پوسٹ پر رات کے اندھیرے میں حملہ کیا جس سے پاکستان فوج کے 28 جانبازوں نے جان کی بازی ہار دی۔ اس حملے کے ردعمل میں پاکستان نے نیٹو سپلائی لائن بند کر دی جو آٹھ ماہ سے زائد عرصہ بند رہی اور بالآخر امریکی حکام کی پاکستان سے سرکاری سطح پر معافی مانگنے کے بعد ہی یہ سپلائی لائن دوبارہ بحال ہوئی۔ یہ واقعہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی میں شدید اضافے اور پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچانے کی ایک اہم وجہ بنا۔ پاکستان کو نیٹو سپلائی لائن کی مد میں ملنے والی رقم اور دیگر امداد تقریباً دس ماہ بند رہی۔ بہر حال اسی سانحے کو بنیاد بنا کر حکومت پاکستان نے شمسی ایئربیس خالی کروایا جو مشرف دور میں 2001 امریکی فوج کے حوالے کیا گیا تھا۔
یہ تو تھا احوال ملک کو سالمیت کے حوالے سے درپیش انتہائی حساس اور خطرناک مسائل کا۔ اگر ہم ملک کو درپیش دیگر اندرونی مسائل اور چیلنجز کی بات کریں تو جولائی 2010 کے آخر میں خیبر پختونخواہ میں ہونے والی بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب نے تو معیشت کی جیسے کمر توڑ دی۔ 2000 انسان لقمہ اجل بن گئے، چار ہزار سے زائد زخمی، دو کڑور سے زیادہ لوگ متاثر اور 18 لاکھ لوگوں کے گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ ایک کروڑ 70 لاکھ ایکڑ پر کھڑی کپاس، گنے، چاول، گندم اور دیگر اجناس کی فصلیں تباہ ہوئیں۔ 4000 کلومیٹر کی قومی شاہراہوں اور 5500 کلومیٹر ریلوے ٹریک کو مکمل یا جزوی نقصان ہوا۔ ان نقصانات کے ساتھ ساتھ سیلاب سے پاکستانی معیشت کو براہ راست 60 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان ہوا۔ 2011 میں کوہستان میں سیلاب اور سندھ میں بارشوں سے تباہ کاری سے دس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ ان دو بڑے سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بحالی میں دو سال سے زائد کا عرصہ لگا اور مجموعی طور پر تقریباً 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
پانچ سالوں میں ملک میں ان مسائل کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام کی فضا بھی بنا دی گئی تھی۔ عدلیہ بحالی تحریک کے نام پر طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا۔ ایک سازش کے تحت افتخار چوہدری کو بحال کروایا گیا اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو مسلسل زیرعتاب رکھا اور کوئی کام نہ کرنے دیا گیا۔ شاید پیپلزپارٹی کی حکومت کے سانس لینے پر بھی سوموٹو ایکشن لیا گیا اور اسے بدنام کرنے کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا گیا۔ معاشی ترقی کے ہر منصوبے کو عدالتوں میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے افتخار چوہدری چیف جسٹس نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر ہوں۔
میمو گیٹ سکینڈل سے ایک بار پھر پیپلزپارٹی پر غداری کے الزامات لگائے گئے اور جمہوریت کے نام نہاد چیمپیئن کالے کوٹ پہن کر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف عدالتوں میں پیش ہوئے۔ دوسری طرف عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر پوری آشیر باد کے ساتھ پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف اپنا راگ الاپ رہے تھے۔ حکومت پنجاب سرکاری سطح پر وفاق پر حملہ آور تھی اور ہر مشکل موقع پر بجائے وفاق کا ساتھ دینے کے اس کے خلاف کھڑی ہو جاتی۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ نے طاہرالقادری جیسے مردہ گھوڑے میں جان ڈال کر اسے بھی پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف کھڑا کیا۔
پیپلزپارٹی کو اس وقت کے درپیش تمام مسائل کا احاطہ کرنا تو کافی مشکل ہو گا۔ صرف چند مسائل بیان کیے تاکہ تب کی صورت حال کی یاددہانی ہو سکے۔
اب آتے ہیں معیشت کی طرف۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب پیپلزپارٹی کے پاس اقتدار آیا تو پاکستان کی جی ڈی پی کیا تھی اور 2013 میں کیا تھی۔ 2005 اور 2006 میں جی ڈی پی گروتھ ریٹ 6.18 فیصد تھا اور جب لال مسجد کے واقعے کے بعد دہشت گردی کی لہر میں شدت پیدا ہونا شروع ہوئی تو اگلے سال یعنی 07-2006 میں شرح نمو گر کر 4.83 فیصد پر آ گئی اور مالی سال 08-2007 میں پیپلزپارٹی کے اقتدار میں آنے سے پہلے یہ 1.71 فیصد پر آ چکی تھی۔ پیپلزپارٹی 1.71 فیصد سے جی ڈی پی کو اٹھا کر 2013 تک 153 فیصد اضافے کے ساتھ 4.4 فیصد پر لے گئی۔ یاد رہے کہ نون لیگی دور حکومت کے پانچ سالوں میں اس میں صرف ایک پوائنٹ اضافہ ہوا اور 18-2017 میں یہ 5.43 فیصد تک ہی پہنچ پائی۔ پانچ سالوں میں مجموعی قومی پیداوار 10452 ارب سے بڑھ کر 86 فیصد اضافے کے ساتھ 2013 میں 19436 ارب تک پہنچی۔ 08-2007 میں افراط زر یا شرح مہنگائی 25 فیصد پر تھی جسے تمام تر مشکل حالات کے باوجود حکومت آٹھ فیصد تک لانے میں کامیاب رہی جو کسی معجزے بھی سے کم نہیں تھا۔
شرح سود 15 فیصد سے 9.5 فیصد لایا گیا۔ ٹیکس محصولات 1008 ارب سے بڑھا کر 136 فیصد اضافے کے ساتھ 2380 ارب پر آئے جو کاروباری طبقے کا حکومتی اقدامات پر اظہار اطمینان تھا۔ بیرونی ممالک سے ترسیلات چھ ارب ڈالر سے بڑھ کر 117 فیصد اضافہ کے ساتھ 14.5 ارب ڈالر ہوئی۔ سٹاک مارکیٹ جو 2007 میں 4800 پوائنٹس پر تھی 2013 میں 18500 پوائنٹس تک جا پہنچی۔ ان پانچ سالوں میں 5600 میگاواٹ سے زائد بجلی سسٹم میں شامل کی گئی اور 24۔578 میگاواٹ کے سستی بجلی کے نئے منصوبوں کا آغاز کیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ وہی منصوبے ہیں جن کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے دور اقتدار میں لیتی رہی۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں برآمدات باوجود عالمی کساد بازاری اور داخلی معاملات کے 19 ارب ڈالر سے بڑھ کر 25 ارب ڈالر ہوئیں۔
اسی دور میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بنیاد رکھی گئی اور 70 لاکھ سے زیادہ گھرانے اس سے مستفید ہوئے۔ وسیلہ حق پروگرام کے تحت تین لاکھ روپے تک کے بلا سود قرضے اور لاکھوں نوجوانوں کو 60 مختلف شعبوں میں فنی تربیت دی گئی اور ساتھ میں فی طالب علم 6000 روپے ماہانہ وظیفہ دیا گیا۔ یہ پروگرام آج بھی جاری ہے اور اس کا شمار دنیا کے چند بڑے اور کامیاب سوشل ویلفیئر پراجیکٹس میں ہوتا ہے۔
زراعت کے حوالے سے پیپلزپارٹی کی حکومت نے واقعی شاندار کارنامے انجام دیے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ 2007 میں 546 ارب روپے کی زرعی آمدن کو پانچ سالوں میں 1200 ارب روپے تک پہنچا دیا گیا۔ کسانوں کے لیے گندم کی سرکاری قیمت 425 روپے فی من سے بڑھا کر پانچ سال میں1200 روپے فی من کردی گئی، جو اب آٹھ سال بعد 1350 تک پہنچ سکی۔ اس اضافے کی وجہ سے گندم کی پیداوار 20 ہزار ملین ٹن سے بڑھ کر 2013 میں 26 ہزار ملین ٹن تک جا پہنچی۔ گنے کی سپورٹ پرائس جو 2007 میں 60 روپے تھی کو پانچ سالوں میں بڑھا کر 170 روپے کیا گیا جو اب آٹھ سال بعد 180 روپے ہے۔ کپاس کی قیمت کا تعین کرنے کے لیے فری مارکیٹ سسٹم کا نظام متعارف کروایا گیا اور کسان کو کپاس کی فصل کا معاوضہ عالمی منڈی کے برابر یقینی بنایا گیا۔ اڑھائی لاکھ سے زائد ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کے نرخ 32 روپے فی یونٹ سے کم کر کے آٹھ روپے فی یونٹ کیے گئے۔ ان اقدامات سے 2013 میں میں پاکستان زرعی طور پر ایک خوشحال ملک بن گیا تھا۔ (نوٹ۔ معیشت سے متعلقہ درج تمام اعداد وشمار سرکاری ہیں اور آج بھی حکومتی ویب سائٹس پر موجود ہیں۔)
اسی حکومت نے پبلک پرائیویٹ سیکٹر میں 70 لاکھ کے قریب ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں پانچ سالوں میں 125فیصد سے لے کر 175فیصد اضافہ ہوا۔ پانچ سالوں میں اتنا اضافہ ملکی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اور اس اضافے کا اعزاز بھی پیپلزپارٹی کی اس حکومت کو ہی ملا۔
ان اقدامات کے ساتھ ساتھ ریاست کو مضبوط کرنے کے لیے 1973 کے آئین کی بحالی، صدارتی اختیارات کی پارلیمنٹ کو منتقلی، مکمل صوبائی خودمختاری اور 18 وزارتیں صوبوں کے حوالے کی گئیں، ججوں کی تعیناتی کے لیے نئے نظام کی تشکیل کی گئی، آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کی ابتداء کی گئی تاکہ بلوچ بھائیوں کی محرومیوں کا ازالہ ہو سکے۔ صوبہ سرحد کو عوامی مطالبے پر خیبر پختونخوا کی حیثیت سے نئی شناخت دی گئی، گلگت بلتستان کو صوبہ کی حیثیت دی گئی، فاٹا میں پرانے نظام کے خاتمے کی منظوری بھی اسی دور میں دی گئی۔ یہ وہ چند ایسے احسن سیاسی اقدام ہیں جن کی افادیت کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جو حقیقی معنوں ميں جمہوریت کے حامی اور ریاست کے وفادار ہوں گے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کا آصف علی زرداری کی قیادت میں ایک اور بڑا کام پاکستان کی چین کے ساتھ دوستی کی تجدید ہے۔ پچھلے کافی عرصے سے چین کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا تھا جس سے ہماری دوستی میں خلیج بڑھنے لگی تھی۔ گوادر بندرگاہ کو ہانگ کانگ سے لے کر دوست ملک چین کے حوالے کرنے کا معاہدے کیا گیا، جس کے تحت خنجراب تا گوادر شاہراہوں کی تعمیر ہونا تھی۔ یہی منصوبہ آج سی پیک کے نام سے جانا جاتا ہے اور مسلم لیگ ن اسے اپنی حکومت سے منسوب کرکے اس کا کریڈٹ لیتی ہے۔
پاکستان ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ شروع کیا گیا جس کی تکمیل دسمبر 2014 میں ہونا تھی مگر مسلم لیگ ن کی حکومت نے بیرونی دباؤ کے تحت وہ منصوبہ روک دیا۔
یہ مختصر احوال ہے ان اقدامات کا جو پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں ملکی بہتری کے لیے کیے۔ خارجہ، داخلہ، دفاع، خزانہ، خوراک و زراعت اور ہیومن ڈویلپمنٹ کے شعبوں میں ان پانچ سالوں میں بیش بہا کام ہوئے مگر افسوس کہ ان کی مناسب تشہیر نہ ہو سکنے کی وجہ سے پیپلزپارٹی انتخابات میں کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکی۔
آج کی اس جدید دنیا میں جبکہ سیاستدان میڈیا وار فیئر کے حوالے سے اپنی میڈیا پالیسیز کا رخ متعین کر چکے ہیں اور اس کے منفی اثرات سے نبرد آزما ہونے کے طریقوں پر عملدرآمد بھی کر رہے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی ابھی تک بدقسمتی سے تنظیمی طور پر شاید میڈیا وار فیئر کا حصہ ہی نہیں۔
پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو میڈیا سائنسز کی اہمیت کو باقاعدہ سمجھنا اور تسلیم کرنا چاہیے۔ پنجاب میں شعبہ اطلاعات کو تحصیل لیول تک فعال بنانا انتہائی ضروری ہے اور اب یہاں پڑھے لکھے نوجوانوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے جو جدید میڈیا سائنسز سے مطابقت اور سوشل میڈیا سائنسز سے واقفیت رکھتے ہوں تاکہ پارٹی کو ان کا فائدہ ہو سکے۔ اگر جلد یہ سب کچھ نہ کیا گیا تو پارٹی کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔