پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ق کے صوبائی وزیر باؤرضوان نے گِلہ کیا ہے کہ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ق لیگ کے ووٹوں پر ٹکی ہے تاہم ’ہمیں معاہدے کے باوجود وہ اہمیت نہیں دی جارہی جس کے ہم مستحق ہیں۔‘
انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ اگر گذشتہ عام انتخابات میں ق لیگ اپنے امیدوار کھڑے کر دیتی تو پی ٹی آئی کے وہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی جو پانچ ہزار یا اس سے کم ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے وہ ناکام ہوسکتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا: ’چوہدری برادارن نے اپنی پارٹی کے امیدواوں کو ناراض کرتے ہوئے پی ٹی آئی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی۔ جن نشتوں پر ق لیگ نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ان پر سو فیصد ہمارے امیدوارکامیاب ہوئے۔‘
انھوں نے کہا کہ پنجاب میں بیشتر فیصلوں پر ق لیگ کو بطور اتحادی اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ ’پی ٹی آئی سے معاہدے کے تحت ق لیگ کو وفاق میں دو وزارتیں ملنا تھی لیکن ایک دی گئی جبکہ پنجاب میں جو دو وزارتیں ملیں وہ بھی بڑی مشکل سے ملیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اتنے مسائل اور عدم اعتماد کے باوجود وہ حکومت کا حصہ کیوں ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا: ’ہم نے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کو کئی بار اپنی مشکلات اورمسائل سے آگاہ کیا لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم معاہدے کی پاسدار ہیں، لیکن ہم نے حکومت کو یہ شکایات پہنچا دی ہیں۔‘
باؤ رضوان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں بحرانوں اور مشکلات سے بچنے کے لیے سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ’ہماری بہتر تجاویز کو تنقید سمجھا جاتا ہے حالانکہ ق لیگ حکومت کی کامیابی کے لیے مشورے دیتی ہے۔‘
انھوں نے صوبے میں وزیر اعلیٰ عثمان بزادر کی ممکنہ تبدیلی پر ق لیگ اور ن لیگ میں کسی اتفاق کے سوال پر کہا: ’چوہدری برادران کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ ن لیگی قیادت کے ہاتھوں بہت دفعہ ڈسے گئے ہیں، قرآن پر ہونے والے وعدے بھی پورے نہیں کیے جاتے، اس لیے اب ن لیگ سے اتحاد مشکل ہے اور اس کا کوئی امکان نہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’پی ٹی آئی کا جو بھی رویہ ہو، ہم کابینہ یا اسمبلی کی حد تک اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہیں گے لیکن قیادت کے حکم پرمعاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔‘