کرونا ڈائری، بیجنگ میں 31واں دن

چین میں رہنے والے ایک پاکستانی طالبِ علم کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔

(اے ایف پی)

یہ نئے سال کے پہلے مہینے کا آخری دن ہے اور اگر کسی چینی سے پوچھیں تو آپ کا سامنا ایک میٹھی، پراسرار اور ہڑبڑاتی ہوئی مسکراہٹ سے ہو گا۔ آپ محسوس کریں گے یہ انتہائی فرحت بخش اور طمانیت سے بھر پور ہے اور کچھ ہی دیر میں نیلے دن کی طرح اس بات کی صداقت پہ تہ دل سے ایمان لے آئیں گے کہ آج سے پہلے کسی نے آپ کے کسی بھی سوال کا ایسا مکمل خوش اخلاق اور کامل یقین کر لینے جیسا بالکل سیدھا سادا اور آسان جواب نہیں دیا۔

حالانکہ وہ کوئی بھی لفظ ادا کیے بنا کب کا جا چکا ہو گا۔ اس کی جواب دینے میں ایسی احتیاط سے وہ شخص آپ کو نہایت پر ذائقہ اور صاحب اسلوب معلوم ہو گا اور آپ کو چین میں بیشتر ایسے ہی صاحب اسلوب اور سنجیدہ لوگ ملیں گے جو بات چیت میں لفظوں کے بر جستہ استعمال کی بجائے مسکراہٹ کی عالمگیریت کے قائل ہیں۔ وہ غیر ملکی لوگوں سے کم سے کم الفاظ میں یا بعض اوقات تو بالکل خاموش رہ کر بات کرنے کے قائل ہیں۔ اس سے آپ قطعاً یہ مراد نہیں لے سکتے کہ وہ بد اخلاق اور نیچ قسم کے لوگ ہیں جو مہمانوں کے آتے ہی اپنے گھروں میں برتن ایسی چالاکی سے فرش پر پھینکتے ہیں کہ ٹی وی کے شور میں بھی مہمان ان خالی برتنوں کے الٹے پیندوں کی فرش پہ ساکت ہو جانے تک کی آخری آواز بھی آسانی سے سن سکتے ہیں اور میرے خیال میں یہ کوئی ایسا گرا ہوا اشارہ بھی نہیں کہ اس پہ واویلا کیا جائے یا ناراض ہونے جیسا انتہائی قدم بنا سوچے سمجھے اٹھا لیا جائے۔ ہمیں میزبانی کے عبادت بھرے نیک فریضے کی نزاکتوں کو سمجھنا چاہیے اور میزبان کی عجلت اور ناچاری میں اس کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ اس کا حوصلہ بنا رہے اور وہ مہمانوں سے بالکل ہی مایوس نہ ہو جائے۔

آج ساتواں دن ہے میں نے کسی کی میزبانی نہیں کی اور نہ ہی کسی کو یہ نیک فریضہ ادا کرنے جیسی خوشی ہی دے سکا ہوں۔ میری فریج میں سبھی سبزیاں، گوشت، انڈے، دودھ کے پیکٹ، اماں کا بنایا ہوا اچار، جوس کے ڈبے اور وہ جمے ہوئے سالن کا ڈونگا تک ختم ہو چکے ہیں جسے میں ایک ہفتہ قبل پھینک دینے کے ارادے سے بس کوڑے والے شاپر میں ڈالنے ہی والا تھا مگر شاید سستی اور پھر اس گندے برتن کو دھونے جیسے عذاب سے بچنے کے لیے جوں کا توں واپس رکھ دیا۔

میں چین کے دارالحکومت بیجنگ کی ایک انجینیئرنگ یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں۔ یہاں پی ایچ ڈی کے طلبہ کو رہنے کے لیے پانچ منزلہ عمارت والے ہاسٹل میں ایک تقریباً پر آسائش کمرہ دیا جاتا ہے جس میں دیگر سہولتوں (جیسے 12 مہینے گرم پانی، ایک چائے کی کیتلی، ایک چینل والا موٹا ٹی وی) کے ساتھ ساتھ ایک عدد روم میٹ بھی شامل ہے۔

تا حال کسی بھی حکومتی خبر رساں ادارے یا عالمگیر ہنگامی صورت حال آگاہ کرنے والی تنظیموں نے کھلے لفظوں میں یہ اعلان نہیں کیا کہ ہمارے سیارے کے دن گنے جا چکے ہیں یا اس کو چلانے والے طاقتور امرا اپنے جائز بال بچوں اور قانونی بیویوں کے ہمراہ ان خلائی جہازوں میں بیٹھ گئے ہوں جنہیں دوسرے سیاروں میں نئی کالونیاں آباد کرنے یا ہمارے سیارے کے اضافی فضلے کو ٹھکانے لگانے کی خاطر گذشتہ کئی دہائیوں سے تعمیر کیا جا رہا تھا۔ ابھی تک علم و فضل کے تمام شعبوں کے چوٹی کے ماہرین صرف ایک بات پر متفق ہو سکے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ’یہ صورتِ حال نہایت تشویش ناک ہے!‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قدرت کے معاہدوں اور پرانے تہذیبی اصولوں کے مطابق یہ جان لیوا وبا اس بار بھی موجودہ دنیا کے گنجان ترین ملک کے ایک بے حد مصروف اور تیز رو شہر سے پھوٹی ہے۔ بعضوں کی رائے میں اس کی وجہ وہ خوف ناک چمگادڑ ہے جسے بڑے خونی معرکوں سے پکڑا گیا اور بعد میں وہ ایک معروف ریستوران میں نہایت خوش شکل سوپ میں سجی ہوئی دیکھی گئی یا بعض کینہ پرور لوگ اس کا الزام چند مشکوک سمندری جانداروں پر لگانے لگے ہیں جو صدیوں سے ان کے آبا و اجداد کے ہفتہ وار مینو کا حصہ رہے ہیں۔

لیکن جمہوری اور قابل قبول رائے بنانے والے گروہ اسے آج بھی قہر خداوندی بتاتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے میں یہی وجہ لوگوں کو امید اور جینے کا حوصلہ دے گی۔ میں ذاتی طور پر اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ’جتنے منہ اتنی باتیں‘ اور اگر میانہ روی سے دیکھا جائے تو اس افراتفری اور جان بچاؤ کے عالم میں یہ وجہ کوئی ایسی غیر عقلی یا دیوانے کی بڑ بھی نہیں لگتی۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے نازک حالات میں بڑے بڑے جغادری پہلوان بھی ہاتھ پاؤں چھوڑ جاتے ہیں اور پہلیاں بنانے والے ذہین ترین دماغ بھی چاہے تو دو سال کے بچے کے رونے کی آواز سے خود کشی کر لیں۔

اب اس بات سے آپ بہ خوبی سمجھ چکے ہوں گے کہ میں جو فقط ایک کرسی میز اور لیپ ٹاپ والا انسان ہوں، انسانیت کی اس کروٹ سے کس قدر دہشت زدہ ہو گا۔

روم میٹ کے جانے سے اور تو کچھ نہیں ہوا بس اتنا ہے کہ اب اس مکمل تنہائی میں کبھی چونک جاؤں تو میرے اپنے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کان چوکس ہو جاتے ہیں۔ میں خطرے کی بو محسوس کرنے کو ناک سے سانس لیتا ہوں تو مساموں سے دھواں اٹھتا دکھائی دیتا ہے اور ایک لمحے کو یہ خیال اس قدر غالب آ جاتا ہے کہ میں اس رنگ برنگی موت کی شکار دنیا کا آخری فرد ہوں اور مجھے محفوظ کر سکنے والے سبھی تحقیقی تجرباتی طبی ادارے حتیٰ کہ عجائب گھر تک فنا ہو چکے ہیں. اب ایسے لمحے میں آپ بھی میری جگہ ہوتے تو ایک بار ضرور سوچتے کہ کچھ اور نہیں تو کاش آپ کو بطور نشان عبرت ہی محفوظ کر لیا جائے۔ یہ حفاظت ہی کا خیال ہے جو ڈر کو مرنے نہیں دیتا بلکہ اسے مزید خوفناک بناتا ہے اور اس قدر مکمل فنا ہو جانے کا ڈر موت کی کسی بھی آسمانی کتاب میں کبھی نہیں دکھایا گیا۔

شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کس سے مخاطب ہوں۔ ایک خوفزدہ شخص کی ذاتی ڈائری میں آپ کا کیا کام۔۔۔۔ میں اس کے جواب میں آپ سے صرف اتنا کہوں گا کہ اگر آپ یہ پڑھ رہے ہیں تو پھر آپ کو خوفزدہ اور پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور سمجھ لیجیے کہ میرے سبھی خدشے بے بنیاد تھے۔

ورنہ فنا ہوتے ہوئے آخری فرد کی ڈائری سب کے لیے ہوتی ہے۔ اس کا مخاطب ہر کوئی ہوتا ہے یعنی موچی، درزی، نائی، دربان، محنت کش، اور کوڑا اٹھانے جیسے معمولی پیشہ انسانوں سے لے کر معزز پیشہ اور مغرور ترین انسان میرے مخاطب ہیں حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو لکھنا، پڑھنا اور بولنا بھول چکے ہوں اور اس جان لیوا وبا نے اشاروں کی زبان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہو۔ میں ہمیشہ سے پر امید رہا ہوں اور آخری دم تک رہوں گا۔۔ مجھے تو یہاں تک امید ہے کہ اگر اس کائنات سے انسان نامی سپیشیز یکسر غائب بھی ہو جاتی ہے تو کیا پتہ ہزاروں لاکھوں سالوں کے ارتقا سے پیڑ بوٹے میری زبان سمجھنے لگ جائیں اور ایسے وقت میں بوڑھے برگد عبادت کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے جن کی تعظیم جنگل کے ہر چھوٹے بڑے پر یکساں لازم ہو گی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ