’یوسف خان صاحب کیا حال ہے۔ میں کہہ رہا تھا کہ آپ نے زمین کا ایک انتقال درج کیا ہے اس میں کسی پٹواری نے رشوت یا جیب کے لیے تو کچھ نہیں مانگا ہے۔ آپ مطمئن ہیں کہ کام ٹھیک ہوا ہے؟‘
یہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی ایک شہری سے ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو ہے، جب وہ اپنے پٹوار خانے میں ایک کام کے سلسلے میں ان سے یہ معلومات حاصل کر رہے تھے کہ آیا ان کا کام درست طریقے سے ہوا ہے یا نہیں۔
وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری کی گئی ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ محمود خان عوام سے براہ راست رابطہ کرتے ہیں اور پٹوار خانوں اور تھانوں سے رجوع کرنے والے لوگوں سے ٹیلیفون پر سہولیات کی فراہمی کے بارے میں معلوم کرتے ہیں۔
وزیراعلیٰ کی یہ ٹیلیفونک گفتگو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونے کے بعد اس پر صارفین کی جانب سے مختلف آرا سامنے آئیں۔ کچھ لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا، جن کے خیال میں یہ سب کچھ ایک پبلسٹی سٹنٹ ہے اور اس سے عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
جبکہ کچھ لوگوں نے اسے ایک اچھا قدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ لیڈران کو اسی طرح عوام کے ساتھ رابطے مزید مضبوط کرنے چاہییں۔
ٹوئٹر پر ایک صارف مشتاق احمد درانی نے اس ساری گفتگو کو ایک ’ڈرامہ‘ قرار دیا اور لکھا کہ ’یہ سارا ٹولہ ہی بی گریڈ اداکاروں کا ہے چاہے صوبائی ہوں وفاقی۔‘
سارا ٹولہ ہی بی گریڈ اداکاروں کا ہے، چاہے وفاقی ہو یا صوبائی۔
— Mushtaq Ahmad Durani (@imdurrani) February 10, 2020
اسی طرح پشاور کے سینیئر صحافی ارشد عزیز ملک نے لکھا کہ یہ ایک پبلسٹی سٹنٹ اور عارضی اقدام ہے۔
کچھ صارفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ساری ’پلانٹڈ کالز‘ ہیں۔ایک صارف سمیع خان نے لکھا کہ وہ وزیر اعلیٰ کو ایک نمبر دیں گے، وہ اس پر کال کر کے پوچھ لیں کہ پٹواری کتنے پیسے لیتے ہیں۔
میں وزیر اعلی کو ایک نمبر دیتا ہوں اس پہ فون کریں اور پھر ان سے پوچھیں کہ پھٹواری نے کتنے پیسے لئیے تھے؟
— Sami Khan (@Koza_Gar) February 10, 2020
ایک اور صارف نے وزیراعلیٰ کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے لکھا کہ ’ایک اچھے کام کی تقلید کی جائے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔‘
اچھے کام کی تقلید کی جائے تو اسکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے.
— Omer Yusufi (@omerfarooqkhany) February 10, 2020
زرغون نامی ایک صارف نے لکھا کہ یہ کام وزیر اعلیٰ کا نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ڈپٹی کمشنر دفتر میں ایک شکایت سیل قائم ہوتا ہے اور ان مسئلوں کو وہی دیکھتے ہیں لیکن یہاں وزیر اعلیٰ سستی شہرت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔
یہ کام ڈی سی آفس میں قائم کردہ شکایت و انکوائری سیل کی ہوتی ہے اس کام کیلئے ایک آفس اسسٹنٹ کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے
— Zarghoon (@sartoor_f) February 10, 2020
لیکن یہاں ایک بے روزگار وزیر اعلی سستی شہرت بٹورنے کی خاطر جگت بازی میں لگا ہوا ہے
اگر وزیر اعلی کو واقعی مسائل سننے اور حل کرنے کا شوق ہے تو BRT پر توجہ دے
تاج محسود نے ٹویٹ کی کہ وزیراعلیٰ کو کوئی بتائے کہ صوبائی اسمبلی کے سامنے وزیرستان سے آئے ہوئے لوگ کئی دنوں سے تباہ شدہ مکانات اور بازاروں کے معاوضے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں، پہلے ان کے مسائل حل کریں، بعد میں یہ ’ڈرامہ بازیاں‘ کریں۔
وزیر اعلی صاحب کو کہدو کہ کے پی اسمبلی کے باہر نارتھ وزیرستان اور ٹانک میں ساؤتھ وزیرستان کے آئ ڈی پیز کئی دنوں سے اپنے تبا شدہ مکانات اور بازاروں کے معاضے کیلئے احتجاج کرہے ہیں پہلے انکے مسائل حل کرو بعد میں یہ ڈرامے بازیاں کرو @IMMahmoodKhan
— Taj Mehsud (@PashteenTaj1) February 10, 2020
اسی طرح سیمل راجا نے سوال اٹھایا کہ شہری کو فون کر کے ان کا مسئلہ سننا اچھی بات ہے لیکن ویڈیو بنانے کی کیا ضرورت تھی۔
شہری کو فون کیا اچھی بات مگر ویڈیو بنا کر تشہیر کرنے کی وجہ پبلسٹی ہے یا کچھ اور؟
— Seemal Raja (@SeemalRaja) February 10, 2020
نیکی کر دریا میں ڈال
ماضی میں کون سے لیڈران یہ اقدام اٹھا چکے ہیں؟
سابق وزیراعظم نواز شریف نے 1997 میں اسی قسم کی ایک سروس شروع کی تھی، جس میں وہ عوام کے ساتھ فون پر بات کرکے ان کے مسائل سنتے تھے، لیکن یہ اس طرح تھا کہ عوام کو ایک ٹیلیفون نمبر فراہم کیا جاتا تھا اور اسی پر شہری فون کرکے اپنی شکایات وزیراعظم تک پہنچاتے تھے۔
تاہم وزیر اعلیٰ محمود خان نے جو اقدام اٹھایا ہے یہ اس سے قدرے مختلف ہے۔ اس میں وزیر اعلیٰ مختلف شکایت کنندہ کے نمبر اور ان کی درخواستوں میں سے کسی بھی نمبر کا انتخاب کرکے ان کو فون ملاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی عوامی کالز سننے کا سلسہ شروع کیا تھا جس میں وہ عوام کے مسائل سنتے تھے ۔
پشاور کے سینیئر صحافی محمود جان بابر سمجھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ نے ایک شہری کے ساتھ فون پر بات کی اور ان کا مسئلہ سنا، یہ اچھی بات ہے لیکن اصل کام یہ ہے کہ نظام کو ایسا بنایا جائے کہ وزیراعلیٰ کو کسی شہری کو فون کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے اور عوام کے مسائل اس نظام کے اندر ہی حل ہو جائیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں پر بھی ایسا نہیں ہوتا کہ وزیر اعلیٰ کسی شہری کو کال کریں اور ان کا مسئلہ سنیں بلکہ اس کی بجائے عوامی شکایات سننے کے لیے ایک نظام متعین ہوتا ہے جس میں عوام شکایات درج کرواتے ہیں، جنہیں دور کرنے پر عمل درآمد ہوتا ہے۔
محمود جان نے بتایا: ’وزیر اعلیٰ کو چاہیے کہ اسی سیل کو مزید فعال کریں اور اس پر عوام کی جانب سے جو شکایات آتی ہیں، انہیں دور کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں تو پھر کسی شہری کو کال کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘
خیبر پختونخوا شکایت سیل: صرف 37 فیصد شکایت کنندہ مطمئن
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے وفاق سمیت ہر صوبے میں عوامی شکایات کے اندراج کے لیے ایک موبائل ایپ لانچ کر رکھی ہے، جس میں عوام مختلف نوعیت کی شکایات درج کر چکے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس ایپ میں اب تک تین لاکھ 21 ہزار سے زائد شہری رجسٹرڈ ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق اب تک اس ایپ کے ذریعے ایک لاکھ 74 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئی ہیں، جن میں سے ایک لاکھ 64 ہزار سے زائد کا ازالہ کیا جا چکا ہے۔
شکایات دور کرنے کا تناسب 94 فیصد سے زائد ہے تاہم مطمئن شکایات کنندہ کا تناسب صرف 37 فیصد ہے یعنی ایک لاکھ 74 ہزار شکایت درج کرنے والوں میں سے 62 ہزار سے زائد شکایت کنندہ اس نظام سے مطمئن ہیں۔