چین میں کرونا وائرس (COVID-19) سے ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 1500 سے زائد ہو گئی ہے اور دسمبر میں وسطی صوبے ہیوبی سے پھوٹنے والی اس جان لیوا وبا سے اب تک 66 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں۔
چینی حکام کے مطابق اب تک 1700 کے قریب طبی عملہ وائرس سے متاثر جبکہ چھ ہلاک ہوئے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ چین صحت کے انتہائی سنگین بحران کا شکار ہے۔
دوسری جانب، چین میں دو فیکٹریوں کے پاکستانی مالک لقمان ججہ نے بتایا ہے کہ وائرس کے باعث چین میں اُن سمیت دوسرے پاکستانیوں کی فیکٹریاں ایک ماہ کے لیے بند کرا دی گئی ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چین میں پاکستانی صنعت کاروں کی سینکڑوں فیکٹریاں ہیں جہاں چینی شہری کام کرتے ہیں لیکن وبا کے پھیلنے کے بعد فیکٹریاں بند کرنا پڑیں جس سے اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر فوری طور پر اس خطرناک وبا پر قابو نہ پایا گیا تو کاروبار تباہ ہوجائیں گے۔ ’ابھی تک جو نقصان ہوچکا ہے اس کے ازالے میں بھی کئی سال لگیں گے۔‘
چینی حکام نے سب سے متاثرہ صوبے ہیوبی میں تقریباً پانچ کروڑ 60 لاکھ شہریوں کو پابند کر رکھا ہے اور وائرس کا پھیلاؤ روکنے کی خاطر یہ صوبہ مکمل ناکہ بندی کی وجہ سے عملاً پورے ملک سے کٹ چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جان لیوا وائرس کے مرکز سے دور کئی شہروں نے سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے لوگوں کے غیر ضروری طور پر گھروں سے نکلنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے جبکہ ملک بھر کے سکول بند ہیں اور بہت سے ادارے اپنے ملازمین کو گھروں سے کام کرنے کو کہہ رہے ہیں۔
وائرس سے صرف چین ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملک بھی متاثر ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے کئی ملکوں نے چین سے آنے والوں پر عارضی پابندی عائد کی ہوئی ہے اور بڑی فضائی کمپنیوں نے چین کے لیے اپنی سروسز معطل کر رکھی ہیں۔
تاہم تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود اب تک دو درجن سے زائد ملکوں میں وائرس سے متاثرہ سینکڑوں کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔ صرف سنگاپور میں 67 مریضوں کی نشان دہی ہوئی ہے۔
پاکستانی صنعت کار لقمان نے خدشہ ظاہر کیا کہ کرونا وائرس چینی معیشت تباہ کرنے کی سازش ہو سکتی ہے۔ ’چین میں غیر ملکی صنعت کاروں کو بہترین سہولیات کے ساتھ مثالی کاروباری مواقعے فراہم کیے جاتے ہیں اور ان سے حکومتی سطح پر غیر معمولی تعاون کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کی چین مین دو فیکٹریاں ہیں جہاں سے وہ کاسمیٹکس و دیگر اشیا تیار کر کے امریکہ اور یورپ سمیت کئی ممالک میں بھیجتے ہیں لیکن انڈسٹری بند ہونے سے ان کے کئی آرڈر بروقت نہیں بھجوائے جاسکے جس سے ان کی کمپنی کی ساکھ متاثر ہوئی۔
ادھر، چینی صدر شی جن پنگ نے تسلیم کیا ہے کہ کرونا وائرس نے ملک کے ہنگامی ہیلتھ رسپانس سسٹم کی ’خامیوں‘ کو عیاں کر دیا ہے۔
ریاستی میڈیا کے مطابق رواں ہفتے حکومتی اصلاحات سے متعلق ایک سیاسی اجلاس میں صدر شی نے کہا ’وبا سے نمٹنا ملکی گورننس کے نظام اور صلاحیت کا بڑا امتحان ہے۔‘
چین کے قومی صحت کمیشن نے ہفتے کو 143 اموات اور 2641 مریض رپورٹ کیے ہیں جن کی اکثریت ہیوبی صوبے سے ہے۔
تاہم تازہ اعداد و شمار گذشتہ روز کے مقابلے میں نصف کم ہیں۔
چینی حکام کی جانب سے مریضوں کی تعداد شمار کرنے کے طریقے میں تبدیلی کے بعد رواں ہفتے ہزاروں کی بڑی تعداد میں کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
اس سے قبل حکام صرف ان مریضوں کو شمار کر رہے تھے جن کے لیب ٹیسٹ مثبت تھے لیکن اب وہ پھیپھڑوں کی امیجنگ کے ذریعے طبی طور پر تشخیص ہونے والے کیسز کو بھی شمار کرنے لگے ہیں۔
حکام کے مطابق لیب ٹیسٹس کے بڑے بیک لاگ کی وجہ سے شمار کرنے کے طریقہ کار میں تبدیلی ضروری ہو گئی تھی۔
صرف جمعرات کو نئے طریقے سے شمار کرنے پر تقریباً 15 ہزار نئے مریض سامنے آئے تھے۔
ہیوبی میں جمعے کو 4800 اور ہفتے کو 2420 نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
چین کے ایک بڑے سائنس دان نے پیش گوئی کی ہے کہ مریضوں تعداد میں مہینے کے آخر تک بڑا اضافہ ہو سکتا ہے۔
اضافی رپوٹنگ اے ایف پی