جرمن حکام نے کہا ہے کہ نو افراد کو قتل کرنے والا 43 سالہ شخص ٹوبیاس رتھجن انتہائی دائیں بازو کے نظریات سے متاثر تھا اور اس نے واقعے سے پہلے ایک آئن لائن پوسٹ میں ملک کے اندر دیگر نسلوں یا ثقافتوں کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مسلح رتھجن نے بدھ کو جرمن شہر فرینکفرٹ کے نواحی علاقے ہناؤ میں ایک غیرملکی کیفے پر حملہ میں نو افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
جرمن چانسلر انگیلا مرکل نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے نے ملک میں نسل پرستی کے ’زہر‘ کو بے نقاب کیا ہے۔
واقعے کے بعد رتھجن اپنی والدہ کے ہمراہ اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کی ’اندورنی دہشت گردی‘ کے تناظر میں تحقیقات کر رہے ہیں۔
اے پی کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ترک، کرد، بلغاریہ، بوسنیا اور رومانیہ کے پس منظر رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ جرمنی میں ترکی کے سفیر نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں پانچ ترک شہری شامل ہیں۔
حملہ آور نے ہناؤ میں واقع ایک شیشہ بار اور اس سے منسلک کیفے پر 10 بجے کے قریب فائرنگ کی، جہاں زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد حملہ آور نے ڈھائی کلومیٹر دور ایک سپورٹس بار پر فائرنگ کی۔ حکام نے بتایا کہ دونوں حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے علاوہ چھ افراد زخمی بھی ہوئے جن میں سے ایک کی حالت تشویش ناک ہے۔
خونریزی کا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب جرمن حکومت دائیں بازو کی جانب سے تشدد کے بڑھتے ہوئے خدشات اور اس پر قابو پانے کی کوششوں میں تیزی لا رہی ہے۔
ان کوششوں میں گذشتہ ہفتے ایک درجن سے زیادہ افراد کی نظربندی بھی شامل تھی۔ ان میں وہ افراد بھی تھے جن پر شک تھا کہ وہ بعض سیاست دانوں اور اقلیتوں کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
جرمن چانسلر مرکل نے 2000 سے 2007 کے درمیان ایک انتہائی دائیں بازو کے گروہ کی جانب سے ملک بھر میں 10 افراد کی ہلاکت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’یہ زہر ہمارے معاشرے میں موجود ہے اور یہ (سوچ) بہت سے جرائم کی ذمہ دار ہے۔‘
انہوں نے ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہونے کا وعدہ بھی کیا۔ تفتیش کاروں نے بتایا کہ بظاہر بندوق بردار نے یہ کارروائی تن تنہا انجام دی تھی۔
جرمنی کے وفاقی پراسیکیوٹر پیٹر فرینک نے کہا کہ حکام یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس حملے کی دیگر افراد کو معلومات یا حمایت حاصل تھی یا نہیں۔
فرینک نے جرمنی کے رازداری قوانین کے تحت حملہ آور کی شناخت ٹوبیس آر کے نام سے کرتے ہوئے تصدیق کی کہ انہوں نے حملے سے قبل ایک ویب سائٹ پر انتہا پسندی پر مشتمل ویڈیو اور الجھے ہوئے خیالات اور انتہائی دائیں بازو کے سازشی نظریات شائع کیے تھے جنہیں اب ہٹا دیا گیا ہے۔
حملہ آور نے 24 صفحات پر مشتمل تحریر میں لکھا تھا ’ہمارے درمیان وہ نسلی گروہ، نسلیں یا ثقافتیں موجود ہیں جو ہر لحاظ سے ہمارے لیے تباہ کن ہیں۔‘
حملہ آور نے مزید لکھا کہ وہ پہلے ’سخت صفائی‘ اور پھر ایک ’عمدہ صفائی‘ کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس سے دنیا کی آبادی آدھی رہ سکتی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ان ملکوں کی آبادی کا مکمل صفایا ہونا چاہیے: مراکش، الجیریا، تیونس، لیبیا، مصر، اسرائیل، شام ، اردن، لبنان، ترکی، عراق، ایران، قازقستان، ترکمانستان، ازبکستان، بھارت، پاکستان، افغانستان، ویتنام، لاؤس، کمبوڈیا اور فلپائنز۔
دوسری جانب لندن کی مسجد میں ایک موذن کو خنجر کے وار سے زخمی کرنے والے شخص کو گرفتار کر لیا گیا۔
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق مرکزی لندن کے علاقے ریجینٹس پارک میں واقع مسجد میں حملہ آور نے عصر کی نماز کے دوران مسجد کے موذن کے کندھے میں چاقو گھونپ دیا تھا جس کے بعد پولیس آفیسرز کو جمعرات کی سہہ پہر تین بج کر دس منٹ پر طلب کیا گیا۔
حملے میں زخمی ہونے والے 70 سالہ شخص کو میجر ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا جہاں ان کا علاج جاری ہے تاہم ان کی زندگی خطرے سے باہر ہے۔
پولیس نے 29 سالہ شخص کو قتل کی کوشش کے شبے میں جائے وقوع سے گرفتار کر لیا ہے جن کے بارے خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ نماز میں شریک تھے۔
مبینہ حملہ آور کو مرکزی لندن کی جیل میں زیر حراست رکھا گیا ہے تاہم سکاٹ لینڈ یارڈ کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ وہ فی الحال اس واقعے کو دہشت گردی کی نظر سے نہیں دیکھ رہے۔
جائے وقوع سے حاصل ہونے والی فوٹیج میں ایک سفید فام نوجوان کو سرخ ہُڈ میں دیکھا جا سکتا ہے جس کو پولیس مسجد سے باہر لے جا رہی تھی۔
ایک علیحدہ ویڈیو میں ایک تیز دھار والے ہتھیار کو، جس کی لمبائی 10 سینٹی میٹر سے بھی کم ہے، فرش پر پڑا دیکھا جاسکتا ہے۔
لندن کے فیتھ فورم کے ڈائریکٹر مصطفیٰ فیلڈ نے کہا کہ نمازیوں نے اس واقعے کو متاثرہ شخص کی گردن پر ’ایک وار اور ایک حملہ‘ قرار دیا ہے۔