سماجی شعبوں میں ہمارے ہاں سرمایہ کاری شرمناک حد تک کم ہے۔ چاہے صحت کا شعبہ ہو یا تعلیم کا، ہم نہ صرف ہمسایہ ممالک سے پیچھے ہیں بلکہ افریقہ کے غریب ترین ممالک سے بھی جو کہ غربت اور جنگوں کا شکار ہیں۔
اس معمولی اور کم سرمایہ کاری کی وجہ سے آج پاکستان میں نومولود بچوں کی شرح اموات افغانستان، دیگر ہمسایہ ممالک اور افریقہ کے غریب ترین ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ ہم سے آزاد ہونے والا ملک بنگلہ دیش بھی اس شعبے میں ہم سے اور بھارت سے آگے ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں ایک ہزار بچوں میں سے 44 بچے پیدائش کے وقت ہی فوت ہو جاتے ہیں اور 75 بچے پانچ سال کی عمر کو نہیں پہنچ پاتے۔ مجموعی طور پر ہمارے ہاں بچوں کی شرح اموات 2018 میں میں69.3 تھی جو کہ 2013 میں 80.5 تھی۔ یہی تعداد جنگ زدہ اور غربت کا شکار افغانستان میں پاکستان سے کئی درجے بہتر 62.3 کی سطح پر ہے اور بھارت میں 61، نیپال میں 48 اور بنگلہ دیش میں 46 ہے۔
یہ اعدادوشمار مزید دردناک ہوجاتے ہیں جب آپ ان کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر 14 بچوں میں سے ایک بچہ ایک سال کی عمر کو نہیں پہنچتا۔ اسی طرح 11 میں سے ایک بچہ اپنی پانچویں سالگرہ نہیں منا پاتا۔ دیہی علاقوں میں شرح اموات شہری علاقوں کے مقابلے میں کئی درجے زیادہ ہے۔
یہ خوفناک شرح اموات ایک ایٹمی ملک میں مناسب طبی سہولتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ پاکستان میں تعلیم کی طرح صحت کا شعبہ بھی مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے اور اس وقت ہم کئی ترقی پذیر ممالک سے بھی کم وسائل اس شعبے پر خرچ کر رہے ہیں۔
بچوں کی اموات میں سب سے بڑی وجہ پیدائش کے وقت غیرمحفوظ طریقہ کار اور اہل طبی عملے کی کمی ہے۔ شرح اموات دیہی علاقوں میں بہت زیادہ ہے جہاں پر طبی سہولتیں تقریبا ناپید ہیں اور اگر ہیں بھی تو ان میں تربیت یافتہ عملے کی شدید کمی ہے۔ یہ کمی، طبی عملے کی غفلت اور ان کے عموماً اپنی ڈیوٹی پر موجود نہ ہونے سے بچوں کی اموات کی وجہ بنتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق بچوں کی اموات کے تمام اسباب کو روکا جا سکتا ہے۔ اس میں حکومتی صحت کے مراکز مہیا کرنے کے علاوہ والدین کی ذمہ داریاں بھی شامل ہیں۔ انہیں وقت پر بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 56 فیصد بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں جس سے بچوں کی ایک بڑی تعداد ان جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو صحت کے شعبے میں کم از کم ہر شہری کے لیے سالانہ 86 ڈالرز خرچ کرنے چاہیں لیکن ہم اس شرح سے کئی درجہ کم محض 36 ڈالرز خرچ کرتے ہیں۔ موجودہ اعدادوشمار کے مطابق ہم اپنی قومی پیداوار کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ یعنی 0.97 فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتے ہیں۔
صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے کی بجائے موجودہ مالی سال میں وفاقی اور پنجاب حکومت نے اپنے بجٹ میں 10 اور 8 فیصد کی کمی کی ہے جبکہ سندھ حکومت نے سب سے زیادہ اضافہ یعنی 22 فیصد کیا ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں افغانستان 187 ڈالرز، بھارت 287 ڈالرز اور ایران 182 ڈالرز ہر سال ایک شہری کی صحت کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ ہماری قومی پیداوار کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ جو صحت کے لیے مختص ہے اس میں سے تقریبا 80 فیصد تنخواہوں اور دیگر انتظامی معاملات پر خرچ ہو جاتا ہے جبکہ صرف 20 فیصد بنیادی صحت کی سہولتوں یا ادویات پر خرچ ہوتا ہے۔
ان انتہائی افسوسناک اعدادوشمار سے نہ ہم بچوں کی اموات کی شرح میں کمی لاسکتے ہیں نہ ہی مجموعی طور پر صحت کے شعبے میں کسی قسم کی مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی اور دفاع کے اخراجات کی وجہ سے ان سماجی شعبوں کے لیے بہت کم رقوم مہیا کی جاتی ہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں وسائل مہیا کرنے کے نئے طریقے سوچنے ہوں گے۔ ہمیں پہلے سے موجود صحت کی سہولتوں کو مؤثر طریقے سے مہیا کرنے کے لیے صحت کے شعبے میں اصلاحات کا سلسلہ بھی شروع کرنا ہوگا۔
ہمیں صحت کی بنیادی سہولیات کو مزید بہتر کرنے پر توجہ دینی ہوگی جس سے ہمارے ہسپتالوں پر دباؤ کم ہو۔ اس سلسلے میں دیہی علاقوں میں صحت کے مراکز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وہاں پر طبی عملہ، سہولیات اور ادویات کی رسائی میں بہتری لانی ہوگی۔ یہ اصلاحات اور سہولتوں میں اضافہ ایک مشکل کام ہے مگر اس کے بغیر نہ ہی ہم بچوں کی شرع اموات میں کمی لاسکیں گے اور نہ ہی ایک صحت مند معاشرہ ترتیب دے سکیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمارے وسائل شدید کم ہیں اور ہمارے سلامتی کے مسائل کی وجہ سے دفاع کے اخراجات میں بھی کمی نہیں کی جا سکتی لہذا ہمیں صحت کے میدان میں خرچ کرنے کے لیے وسائل پیدا کرنے میں جدت پسندی سے کام لینا ہوگا۔
1980 کی دہائی میں اس وقت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے تعلیم کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے ہر درآمد پر 5 فیصد تعلیمی ٹیکس عائد کر دیا تھا اور اس سلسلے میں تمام محاصل تعلیم کے شعبے میں لگائے گئے۔ اسی طرح کے ٹیکس سے ہر سال ایک خطیر رقم جمع کی جاسکتی ہے جو صحت کے شعبے میں بہتری لانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں قانون سازی کی ضرورت ہوگی کہ اس ٹیکس سے حاصل ہونے والی تمام رقوم صرف اور صرف صحت کے شعبے پر خرچ کی جاسکیں اور اور یہ رقوم کسی صورت کسی دوسرے شعبے کو منتقل نہ کی جائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دیہی علاقوں میں طبی عملے کے لیے سہولتوں میں اضافہ کرنا ہوگا تا کہ وہ ان علاقوں میں اپنی خدمات دینے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہوں۔ ان صحت کے مراکز میں عملے کی موجودگی یقینی بنانے کے لیے اور ان کی کارکردگی کی نگرانی کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر صحت کی سہولتوں کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح بچوں کی شرح اموات میں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے۔