اپنی صحافتی زندگی میں افغان طالبان کی اتنی بڑی تعداد ایک جگہ جمع نہیں دیکھی۔ اتنے تھے کہ دوحہ ہوٹل کے ہال میں کرسیاں کم پڑ گئیں تو وہ خود باہر سے اٹھا اٹھا کر لانے لگے۔
ابھی تو سنا تھا کہ کئی تو پاکستان سے پولیو ڈراپس کا کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ’آن ارائیول‘ ویزہ نہیں حاصل کر سکے اور پیچھے رہ گئے ورنہ ہال ان سے کچھا کھچ بھرا ہوتا۔
ایک انگریز خاتون صحافی دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے اس منظر کو غیرمعمولی قرار دے رہی تھی کہ ’a room full of Taliban and Americans is really something!‘ سرخ جسم سے چپکے مختصر لباس میں دوسری خاتون نے جواب دیا ’!yes this is۔‘
کوئی ان کو دہشت گرد کہتا ہے تو کوئی انہیں ان کے بال بچوں کا قاتل لیکن یہ طالبان دکھائی بھی ایک طرح کے لباس اور حلیوں سے منظم تھے۔ تقریب میں شرکت کے لیے ان کی ہوٹل میں آمد بھی انتہائی طریقے سے۔ آگے آگے تحریک کے سینیئر رہنما شیر محمد عباس ستانکزئی اور ملا نور محمد ترابی اور پیچھے پیچھے نوجوان طالبان کی دو دو کی جوڑی میں لمبی قطار۔
بین الالقوامی میڈیا کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے یقیناً ایک پیغام دینے کی کوشش کی۔
ایک مغربی سفارت کار نے کہا کہ یہ وہی نورالدین ترابی ہیں جو طالبان دورہِ حکومت میں اس تحریک کے ساتھ عوام کی نفرت کا باعث بنے تھے۔ انہیں وزیر عدل و انصاف کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور انہوں نے امر بالمعروف کا انتہائی سختی سے نفاذ شروع کر دیا۔ ماضی کے اپنی دہشت کے نشان کو بھی صف اول میں لایا گیا۔ یہ ایک اور پیغام تھا۔
دوحہ میں اپنی رہائش گاہوں سے روانگی کے وقت طالبان کے سفید پرچم لے کر نکلنا اور اس کی ویڈیو جاری کرنا طالبان کی جانب سے ایک اور پیغام تھا۔ تاہم ہوٹل وہ اپنا پرچم لے کر نہیں آئے۔ پھر تقریب کے دوران دو مرتبہ انہوں نے اللہ اکبر کے نعرے بھی لگائے۔ نوجوان طالبان کے چہروں پر اطمینان بھی تھا اور خوشی بھی۔
تاہم ہال میں موجود کسی طالب نے صحافیوں کی کوشش کے باوجود ان سے بات نہیں کی۔
ملا نورالدین ترابی (انڈپینڈنٹ اردو)معاہدے سے قبل طالبان رہنما اور ترجمان سہیل شاہین ایسے غائب ہوئے کہ جیسے دوحہ میں ہیں ہی نہیں، لیکن تقریب کے بعد ایسے گھوم پھر رہے تھے اور بات چیت میں مصروف تھے کہ جیسے بس آج کا ہی دن ہے۔ انس حقانی سے بھی کافی دلچسپ گفتگو ہوئی۔
تشنگی رہی کہ صحافتی ذمہ داریوں کی وجہ سے ان کی پشتو شاعری سننے کا موقع نہیں ملا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی شاعری پر مبنی کتاب لکھ رہے ہیں۔
پہلے ہری ٹائی اور سفید شرٹ پہنے پاکستانی وزیر شاہ محمود قریشی اور دیگر ممالک کے وزرا اور سفارت کار آئے، بعد میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی آمد ہوئی اور سب سے آخر میں ملا عبدالغنی بردار آئے۔
ملا بردار نے تاہم کسی سے ہاتھ نہیں ملایا اور سیدھا اول صف میں اپنی نشست پر براجمان ہوئے۔ یہ وہی طالبان رہنما تھے جو کچھ عرصہ پہلے تک پاکستانی قید میں تھے اور اب دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے ساتھ امن معاہدہ کر رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مائیک پومپیو نے اپنے مختصر خطاب میں تو جیسے طالبان کے سامنے انہیں کیا کیا کرنا ہے اس کی فہرست پڑھ دی۔ ساتھ میں تنبیہہ بھی کی کہ امریکہ ان کی کڑی نگرانی کرے گا۔ جب وہ لوٹ کر اپنی نشست پر آئے تو قطری وزیر خارجہ نے ان کے ہاتھ پر تھپکی دے کر شاید انہیں شاباشی دینے کی کوشش کی۔
پومپیو نے تقریب میں پاکستان کا ذکر نہیں کیا لیکن آدھ گھنٹے بعد اخباری کانفرنس میں اسے اچھے الفاظ میں یاد کیا اور توقع ظاہر کی کہ آگے چل کر بھی انہیں پاکستان کی حمایت میسر رہے گی۔
ہال میں امریکی میڈیا کے لیے قطریوں نے خصوصی انتظام کر رکھا تھا۔ نہ صرف ان کے لیے نشستیں مختص تھیں بلکہ انہیں امن معاہدے کی ایمبارگوڈ کاپیاں بھی باقی دنیا کے صحافیوں سے قبل دے دی گئی تھیں۔ ایک امریکی خاتون سے کاپی مانگی تو انہوں نے چٹا انکار کر دیا۔
درمیان میں قطر کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی بیٹھے تھے، جن کی بائیں جانب ملا بردار اور دائیں جانب پومپیو براجمان تھے۔ قطر یہ معاہدہ کروانے پر بڑا فخر محسوس کر رہا ہے۔ شاید وہ اپنے لیے ناروے کی طرح ’پیس میکر‘ کا کردار ادا کرنا چاہ رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ماضی میں لبنان، سوڈان، جبوتی اور ایرٹریا جیسے تنازعات میں کامیابی سے ثالث کا کردار ادا کر چکے ہیں، لیکن میرے ذہن میں خیال آیا کہ وہ کشمیر جیسے طویل قضیے کے حل کی کوشش کیوں نہیں کرتا؟
خیر قطر نے تو ایسی کسی خواہش کا ذکر نہیں کیا لیکن ملا بردار نے پاکستان کا سب سے پہلے اور الگ سے حمایت پر شکریہ ادا کیا۔ چین، ایران اور ناروے جیسے ممالک کو دوسرے جملے میں یکمشت شکریہ کہہ دیا۔
سمجھوتے پر دستخط کون کرے گا؟ اس بارے میں ابہام سٹیج پر سجی دو نشستوں پر امریکی صدر کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد اور ملا بردار کے بیٹھنے سے بلآخر دور ہوا۔ دونوں نے چھ، چھ مرتبہ دستخط کیے تاہم زلمے کی دستخط کرنے کی رفتار ملا بردار سے تیز رہی۔
ایک جانب جہاں امریکی وزیر خارجہ دوحہ میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کر رہے تھے تو دوسری جانب کابل میں اس کے وزیر دفاع ڈاکٹر مارک ٹی ایسپر صدر غنی کو یقین دہانی کروا رہے تھے کہ افغان حکومت کے ساتھ ان کا سکیورٹی تعلق جاری رکھا جائے گا۔
انہوں نے شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں ہراول دستے کی ذمہ داری سرانجام دے رہے افغان سکیورٹی فورسز کی مدد جاری رکھنے کا وعدہ کیا۔ یہاں امریکہ ایک پیغام دے رہا تھا۔
معاہدہ کل کی بات تھی آج اس پر عمل درآمد اور ٹیسٹ کا پہلا دن ہے۔ تین صفحات پر مبنی اس سمجھوتے میں جہاں طالبان کی اسلامی امارت کا ذکر آیا، وہیں لکھا گیا کہ اسے امریکہ حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کرتا اور جسے وہ طالبان کے طور پر جانتا ہے ان کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا ہے۔
ایک دائمی امن معاہدے اور جنگ بندی کے لیے افغانوں کے ساتھ وسیع مذاکرات کا سلسلہ 10 مارچ سے شروع ہونا ہے جس کے لیے طالبان کی لازمی شرط ان کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی ہے۔ دوسری طرف طالبان بھی مخالفین کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔
آئندہ تین ماہ میں باقی قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہوگا۔ بدلے میں امریکہ آئندہ 14 ماہ میں، یعنیٰ مئی 2021 تک اپنے فوجیوں کا انخلا مکمل کرے گا۔ یہ بنیادی شرائط پوری کرنا آسان نہیں۔
یہ صورت حال اور ماضی کے معاہدوں کا جو حشر ہوا اسے دیکھتے ہوئے سب سے زیادہ افغان شکوک و شبہات میں گھرے ہوئے ہیں۔ انہیں بظاہر نہیں معلوم کہ وہ خوش ہوں یا مزید تشویش کا شکار۔ کیا طالبان ماضی کی غلطیاں دہرائیں گے یا نئے حالات میں ڈھل جائیں گے؟
افغان حکومت کا کیا ہوگا؟ پاکستان نے کیا طالبان کی حمایت ہمیشہ کے لیے ختم کر دی ہے یا نہیں؟ لیکن اہم ترین سوال شاید یہی ہو گا کہ آیا افغان متحد ہو کر بیرونی و اندرونی سازشوں سے نمٹ پائیں گے یا نہیں؟