اسرائیل کی نو منتخب رکن پارلیمنٹ ایمان الخطیب اسرائیلی شہر الںاصرہ میں اپنے حامیوں سے ملاقات کے دوران خواتین کارکنوں سے ہاتھ ملا رہی ہیں اور اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر مردوں کا خیرمقدم کر رہی ہیں۔
یہ خیر سگالی کے جذبات اُس عرب مسلمان خاتون کے ہیں جو اسرائیل کی پہلی حجاب پہننے والی رکن پارلیمنٹ بننے جا رہی ہیں۔ وہ ان چار عرب خواتین کے ایک گروپ کا حصہ ہیں جو مردوں کی اکثریت والی اسرائیلی سیاست میں اپنی آواز بلند کرنے کے لیے تیار ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہودی ریاست کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت مرد سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ہے جبکہ کنیسیٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) میں خواتین ارکان کی تعداد محض 25 فیصد ہے۔
تاہم دو مارچ کو ہونے والے انتخابات میں ایک پارٹی اپنی خواتین کی نمائندگی کو دوگنا کرنے میں کامیاب رہی حالانکہ یہ نچلی بنیاد پر ہوا ہے۔
بنیادی طور پر عرب جوائنٹ لسٹ نے کنیسیٹ کی 120 نشستوں میں سے 15 پر کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ اس اتحاد کی اب تک کی سب سے بہترین کارکردگی تھی۔ گذشتہ ستمبر کے انتخابات میں ان کی تعداد 13 تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس اتحاد کے ذریعے منتخب ہونے والے ارکان پارلیمنٹ میں چار خواتین بھی شامل ہیں۔ ستمبر کے انتخابات میں محض دو خواتین نے کنیسیٹ تک رسائی حاصل کی تھی۔
ایمان خطیب سمیت تین عرب خواتین جبکہ بلیو اور وائٹ پارٹی کی ایک دروز خاتون اس اتحاد کا حصہ ہیں۔ اس اتحاد کو اسرائیل کی 20 فیصد عرب اقلیت کی حمایت حاصل ہے۔ یہ عرب اسرائیلی شہریت رکھتے ہیں تاہم نسلی طور پر فلسطینی ہیں۔
اسرائیل کی عرب برادری کو شکایت ہے کہ یہودی اکثریتی ملک میں ان کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو پر الزام ہے کہ وہ عرب برادری کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں۔
نتن یاہو ان الزامات کے جواب میں کہتے ہیں کہ ان کی حکومت سے زیادہ کسی اور حکومت نے اسرائیلی تاریخ میں عرب برادری کی ترقی کے لیے کام نہیں کیا۔
عرب اتحاد کی منتخب خواتین نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب وہ اپنے حلقے انتخاب کے مسائل پر توجہ دیں گی تو وہ اسرائیلی معاشرے میں وسیع تر امور کی بھی توجہ مرکوز رکھیں گی۔
54 سالہ ایمان خطیب کا، جو چار بچوں کی والدہ بھی ہیں، کہنا ہے: ’پردے کو رکاوٹ نہ بنائیں۔ حجاب لینے والی خواتین کی صلاحیتوں، ان کی اخلاقیات، کام، مہارت اور رویوں کو پرکھا جانا چاہیے۔‘
’مذہب کی جانب جھکاؤ رکھنے والی یہودی خواتین بھی کنیسیٹ کا حصہ ہیں۔ ہم نے ان کے بارے میں کبھی کوئی ایسا تبصرہ نہیں سنا۔ تمام لوگوں سے انسانوں کی طرح برتاؤ رکھنا چاہیے۔‘
باقی عرب اسرائیلیوں کی طرح ایمان خطیب بھی روانی سے عبرانی بولتی ہیں۔
تل ابیب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ایمان کا کہنا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں عرب علاقوں میں ہونے والے تشدد سے لے کر غربت اور رہائش تک کے مسائل کے لیے آواز اٹھانا چاہتی ہیں۔
انہوں نے عرب برادری کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: ’64 فیصد خواتین کو کام کرنے سے روکا جاتا ہے، اس لیے نہیں کہ وہ کام نہیں کرنا چاہتیں بلکہ اس کی وجہ ان کی حالتِ زار اور سفر کے مسائل ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ مقرر کردہ کام کے اوقات کا مطلب یہ ہے کہ عرب خواتین اکثر اپنے بچوں کے سکول جانے سے پہلے ہی کام پر روانہ ہوجاتی ہیں۔ ’ان مسائل کو کنیسیٹ کے پلیٹ فارم پر اٹھایا جانا چاہیے۔‘
نئی پارلیمنٹ آئندہ ہفتے حلف اٹھائے گی لیکن کچھ سیاسی ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ صرف چند مہینوں تک برقرار رہے گی۔
کسی بھی جماعت یا اتحاد کے پاس 61 نشستوں کی اکثریت نہیں۔ اس سے قبل گذشتہ برس اپریل اور ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں بھی یہ ہوا تھا۔
عائدہ توما ایک مسیحی عرب اسرائیلی خاتون ہیں جو عرب جوائنٹ لسٹ کی دو مارچ کو منتخب ہونے والی چار خواتین میں شامل ہیں۔
عائدہ توما 2015 میں پارلیمنٹ کی رکن بننے سے قبل ایک سماجی کارکن تھیں۔ 2020 میں دوبارہ کنیسیٹ کی رکن بننے والی عرب خاتون نے زور دے کر کہا: ’اتحاد کی منتخب ہونے والی خواتین ارکان پارلیمنٹ تمام طبقات سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ پورے معاشرے کی نمائندگی کرتی ہیں۔‘
یہ گروپ مسلم اور مسیحی عرب اسرائیلیوں کے ساتھ ساتھ کچھ بائیں بازو کی نمائندگی کرنے والی یہودی جماعتوں کا مشترکہ اتحاد ہے۔
اس کے ارکان میں اسلام پسندوں سے لے کر کمیونسٹ شامل ہیں۔ ایک اتحاد کی رکن سندس صالح اسرائیل کی سب سے کم عمر قانون ساز بننے جا رہی ہیں۔
تین بچوں کی والدہ سندس صالح کا تعلق النصرہ کے قریب المشاد قصبے سے ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ماسٹر کرنے والی صالح نے اے ایف پی کو بتایا: ’مشترکہ اتحاد کی جماعتوں کے مابین اختلافات موجود ہو سکتے ہیں۔ تاہم ہم چار خواتین متحد اور زیادہ تر چیزوں پر متفق ہیں۔
’ایک ماں اور ایک استاد کی حیثیت سے میں تشدد اور اسلحے کے پھیلاؤ سے پریشان ہوں۔‘
چوتھی خاتون رکن حبہ یزبک مشکل سے ہی پارلیمنٹ پہنچ پائی ہیں۔
اسرائیل کی مرکزی انتخابی کمیٹی نے فیس بک پر مبینہ طور پر ’دہشت گردی‘ کی حمایت پر حبہ کو بطور امید وار بلاک کر دیا تھا۔ تاہم انہوں نے کمیٹی کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی اور اسے جیتنے میں کامیاب بھی رہیں۔
الناصرہ سے ہی تعلق رکھنے والی حبہ کا کہنا ہے کہ اب وہ عربوں کے حقوق کی خاطر لڑنے کے لیے پارلیمنٹ میں اپنی آواز بلند کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔
’ہم اپنی عظیم انتخابی طاقت کو سیاسی جدوجہد میں بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو اس ملک میں بحیثیت عرب ہماری حیثیت کو تقویت بخشتی ہے اور دائیں بازو اور اس کے ایجنڈے سے لڑنے کی طاقت دیتی ہے۔‘