کرونا وائرس کے جنگِ عظیم جیسے حملے کے بعد دنیا بھر میں احتیاط برتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں البتہ وہی ماحول پیدا ہو گیا ہے جو ہلاکو خان کے حملے کے بعد بغداد میں تھا۔
بجائے اس کے کہ وہ تدبیر کرتے، پنجے جھاڑ کر اس بات پر باہم دست وگریباں ہو گئے کہ فرشتے مذکر ہوتے ہیں کہ مونث ہوتے ہیں۔ آپ ہوائی اڈوں اور بازاروں کو تو رکھیے ایک طرف، شفا خانوں اور درس گاہوں میں بھی چلے جائیں تو لوگ دو صفوں میں بٹے ہوئے نظر آئیں گے۔
ایک صف کا خیال ہے کرونا نے خدا کی خدائی کو چیلنج کر دیا ہے۔ دوسری صف کا خیال ہے کہ کرونا نے خدا کے ہونے کا یقین مزید پختہ کر دیا ہے۔
ہم بے نیاز لوگ اس وقت تک نہیں جاگتے جب تک پلوں کے نیچے سے سات سمندر ایک ساتھ نہیں گزر جاتے۔ دنیا جہاں میں دریاؤں اور ڈیموں میں لگے بند کی مقررہ میعاد پوری ہو جائے تو مرمت کا کام شروع کر دیا جاتا ہے، ہمارے ہاں تصور یہ ہے کہ بند کو دوا رفو گری کی ضرورت ہو گی تو خود ہی کسی دن ٹوٹ کر بتا دے گا کہ آؤ میری توبہ کی زیارت کر لو۔
جب تک یہ ٹوٹ کر نہیں دے گا ہم اٹھ کر نہیں دیں گے۔ جب تک ٹرین کی پٹڑی ادھڑے گی نہیں، عمارت کھسکے گی نہیں، جہاز گرے گا نہیں، سڑک پھٹے گی نہیں، گٹر ابلے گا نہیں، ٹرانسفارمر اڑے گا نہیں، آفت ٹوٹے گی نہیں اور قیامت آئے گی نہیں تب تک تعمیر کا سودا ہمارے سر میں سمائے گا نہیں۔ شہر کو سیلاب لے جائے گا تو ہی سوچیں گے اب کون سی اینٹ کہاں رکھنی ہے۔
پاکستان اس وقت شدید ماحولیاتی بحران سے گزر رہا ہے۔ دریا سکڑ ر ہے ہیں اور موسم کی تاریخیں بالکل خطا ہوئی پڑی ہیں۔ ہر طرف مگر اطمینان کا اس قدر گھنا سایہ چھایا ہوا ہے کہ بحران بھی بسا اوقات سٹپٹا جاتا ہے کہ الوالعزمی کی آخر یہ کون سی مثال ہے۔
دنیا میں جہاں کہیں پانی کی سطح گرتی چلی جا رہی ہے، حساسیت کی سطح وہاں بلند ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہمارے ہاں حساسیت کی سطح دم اٹھا کر پانی کی گرتی ہوئی سطح سے بھی دو قدم آگے دوڑے جا رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم ’دیکھی جائے گی‘ کو توکل سمجھتے ہیں اور تدبیر کے فقدان کو تقدیر کا لکھا جانتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کسی بھی مدیر سے پوچھ لیجیے کہ آپ کے اخبار میں جو خبر سب سے کم پڑھی جاتی ہے، کون سی ہے؟ جو خبریں وہ آپ کے سامنے میز پر پھیلا دے ماحولیاتی خبریں اس میں آپ کو سر فہرست ملیں گی۔
ماحولیاتی بحران کی طرح کرونا وائرس کی کھوپڑی بھی پاکستان پہنچ کر گھوم سی گئی ہے۔ وہ حیران ہے کہ یہاں میری فلائٹ بعد میں اتری ہے اور بنی اسرائیل کی طرح یہ 72 قبیلوں میں پہلے سے بٹ گئے ہیں۔ کوئی روحانی بالیدگی کے لیے مجھ میں خدا کی نشانیاں ڈھونڈ رہا ہے اور کوئی اپنا سر پھوڑنے کے لیے ابلیس کا سنگِ آستاں تلاش کر رہا ہے۔
پاکستان پہنچ کر ہی کرونا غریب پر انکشاف ہوا کہ اُس کا علاج تو یہاں اُس کی پیدائش سے بھی بہت پہلے دریافت کیا جا چکا تھا۔ مرکزی شاہروں پر پہنچ کر اسے اندازہ ہوا کہ پوشیدہ امراض والے یونانی حکیموں اور محبوب قدموں میں لٹانے والے چھومنتر باباؤں نے پہلے ہی اپنے اشتہارات اپ ڈیٹ کرکے ان میں جلی حروف کے ساتھ کرونا لکھ دیا ہے۔
اس صورت حال کو دیکھ کر سینیئر ڈاکٹر بھی سر پیٹ رہے ہیں کہ آخر کس چوپائے نے ہمیں کاٹ لیا تھا جو ماں باپ کی ساری کمائی ہم طبی تجربہ گاہوں میں پھونک کر آ گئے۔ ہم بھی ٹوٹکے بازی سیکھتے اور ڈیڑھ انچ کا مطب کھول کے آنکھوں میں جھونکنے والی مٹی بیچتے۔ اس کے لیے تو سند چاہیے اور نہ اس کا کوئی ٹیکس آتا ہے۔ بس پھونک مارتا جا نذرانے پکڑتا جا۔
ہمیں اس بات پر اتفاق کر لینا چاہیے تھا کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے جو احتیاطی تدابیر دنیا میں متعارف ہو گئی ہیں، ہم انہیں اپنے فائدے کے لیے فری فنڈ میں بروئے کار لے لائیں۔
اس کے برخلاف ہم نے پہلے تو ماسک کی قیمتیں چڑھا دیں اور پھر ایک اور مشکل میں الجھ گئے۔ تبلیغی جماعت سے اگر درخواست کرو کہ اتنا بڑا اجتماع انسانی جانوں کے لیے خطرہ ہے تو چوڑے ہو کر کہتے ہیں ہم پر ہی یہ پابندی کیوں؟ کچھ دن پہلے عورت مارچ والوں کو کیوں نہیں روکا؟
اب ہم جیسے لوگ جو عورت مارچ کے حامی ہیں، وہ انچی ٹیپ سے اجتماعات کا ناپ لے کر ثابت کر رہے ہیں کہ کون سے اجتماع میں نقصان کم ہے اور کون سے میں اندیشہ ہائے دور دراز زیادہ ہیں۔ اتنی مشکل میں پڑنے کی بجائے ہم سیدھے سبھاؤ اس بات پر اتفاق کیوں نہیں کر لیتے کہ کسی بھی قسم کے عوامی اجتماع پر چار حرف بھیج کر ہم چھاؤں میں بیٹھیں گے۔ مگر نہیں، زندگی کی فکر ہم بعد میں کریں گے پہلے یہ ثابت کریں گے کہ ہمارا جھنڈا ہی سب سے اونچا ہے۔
دنیا جہاں میں سربراہانِ مملکت آئسولیشن میں جانے کے لیے سامان پیک کر رہے ہیں۔ کینڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی اہلیہ کل رات چھینکی تھیں تو وہ فوراً سے پیشتر تخلیے میں چلے گئے۔ ہمارے والے وزیر اعظم کل مدت بعد پردۂ سیمیں پر آئے تو لگا کہ وہ کرونا کے پھیلاؤ پر فکرمند ہوں گے۔
مگر وہ تو اس بات پر سر پکڑے ہوئے تھے کہ ملک میں عورت مارچ کے نام پر ایک نئی ثقافت کیوں پھیل رہی ہے۔ سارے جہاں کا درد اپنے لہجے میں سموکر یہ بات کھولتے رہے کہ ایسی بیہودہ ثقافتوں کے پھیلاؤ کے اسباب کیا ہوتے ہیں اور ان کا سدباب کیسے ہوسکتا ہے۔
اس خطاب کی رقت انگیزی دیکھ کر کرونا وائرس نے یا تو اطمینان کا سانس لیا ہو گا یا پھر اسے شدید خدشہ لاحق ہوگیا ہو گا کہ ملک میں موجود مجھ سے بھی بڑا عورت مارچ نامی خطرہ کہیں مجھے لاحق نہ ہو جائے۔
بغداد کے شہری جب فرشتے کی جنس کو لے کف اڑا رہے تھے دشمن کا لشکر شہر کی لائبریریاں سمیٹ چکا تھا۔ فصیل کے اس پار سے لپکنے والے شعلوں اور نیزوں نے پیوست ہونے سے پہلے چیک نہیں کیا کہ کون سا دماغ فرشتے کو مذکر مانتا ہے اور کون سا مونث سمجھتا ہے۔ آنکھ بند کر کے موت برستی گئی اور لوگ زمین کا رزق ہوتے گئے۔
کرونا وائرس بھی فرقہ واریت سے مکمل طور پر پاک صاف ہے۔ حملے سے پہلے وہ دلوں میں جھانک کر دیکھ نہیں رہا کہ اس میں کوئی آشنا ابھی بھی بستا ہے یا پھر دھول اڑ رہی ہے۔ وہ مے خانے میں داخل ہوتے ہوئے ساقی سے این او سی لے رہا ہے اور نہ ہی عبادت خانے میں داخل ہوتے ہوئے کسی ولی کے اذن کو خاطر میں لارہا ہے۔
اس کا شکار ہونے کے لیے فقط اتنا کافی ہے کہ آپ حضرتِ انسان ہیں۔ دنیا سے تو خیر ہم کیا سیکھیں گے، کرونا سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ سارے گروہی اور نظریاتی چشمے اتار کر خود اپنی زندگی کو ویسے ہی دیکھ لیں جیسے کرونا دیکھ رہا ہے۔ کیا خبر اسی طرح احتیاط کی آفاقی تدابیر پر ہمارے بیچ شعوری اتفاق پیدا ہو جائے۔