اچھوت پن کیا ہوتا ہے اور اچھوتوں کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھا جاتا ہے۔ کوئی اگر جاننا چاہے تو کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی حالت زار سے بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے۔
یہ وہی لوگ ہیں جن کو کل تک ان کے دوست و احباب اور عزیز و اقارب ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے یہاں تک کہ اگر یہ بیمار پڑ جاتے تو گھر والے اور قریبی عزیز ان کی ناز برداری اور تیمارداری میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے تھے، اور آج جب یہ کرونا وائرس کا شکار ہو گئے ہیں تو اپنے پرائے سب ان کے قریب آنا تو دور کی بات ان کے سائے سے بھی دور بھاگ رہے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ لوگ متاثرہ افراد کے زیر استعمال رہنے والی ہر چیز سے خوف کا شکار ہیں۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ اگر محلے، خاندان، یا ہم پیشہ افراد میں سے کسی میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوتی ہے تو لوگ فوراً حساب کتاب لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ متاثرہ شخص سے ان کی کتنے روز پہلے ملاقات ہوئی تھی،، اگر ملاقات ہوئے کچھ مدت ہوئی ہو تو سکون کا سانس لیتے ہیں اور اگر ملاقات حالیہ دنوں میں ہوئی ہو تو ان کی بے چینی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
حالیہ دنوں کرونا وائرس کے تناظر میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے مختلف خبریں اور ویڈیوز زیر گردش ہیں، یہ خبریں، تصویری مواد اور ویڈیوز کرونا سے متاثرہ افراد سے برتے جانے والے سلوک کی واضح عکاسی کرتی ہیں۔
اسی سلسلے میں پڑوسی ملک بھارت سے آنے والی ایک خبرخصوصی توجہ کا مرکز بنی۔ یہ خبر مشہور بھارتی اداکارہ کانیکا کپور سے متعلق تھی جن کے خلاف کرونا وائرس پھیلانے کے الزام میں نہ صرف تین ایف آئی آر درج کی جا چکی ہیں بلکہ ان کے ساتھ ناروا سلوک بھی اختیار کیا جا رہا ہے۔ کرونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد کانیکا کپور کو قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔
دوران قرنطینہ اپنے ساتھ ہتک آمیز رویے کے بارے میں کانیکا کپور نے ایک بھارتی جریدے کو بتایا کہ ان کو مناسب طبی امداد نہیں مل رہی، ان کا مزید کہنا تھا کہ انھیں صحت افزا کھانا نہیں مہیا کیا جا رہا، ان کا کمرہ گندہ ہے جہاں مچھروں کی بھرمار ہے اور مزید یہ کہ ان کو کوئی اٹینڈ بھی نہیں کر رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح کے رویوں کا سامنا پاکستان کے مختلف ہسپتالوں میں قرنطینہ میں رکھے گئے افراد کو بھی ہے جن کا کہنا ہے کہ انھیں مناسب سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ کھانا اور رہنے کی بہتر سہولیات تو دور کی بات ان کے ساتھ قیدیوں کا سا رویہ رکھا جا رہا ہے جیسے انھیں کوئی بیماری نہیں ہوئی بلکہ انھوں نے کوئی جرم کیا ہے۔
بات صرٖف یہاں تک محدود ہوتی تو بھی قابل برداشت تھی مگر کرونا سے متاثرہ افراد کا جس طرح سوشل میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے وہ انتہائی نامناسب ہے،، پاکستانی میڈیا میں کسی معاملے کو جس طرح سنسنی خیز بنایا جاتا ہے وہ ہی رویہ معاشرے کا عمومی مزاج بن گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ابھی کسی شخص میں صرف کرونا کا شبہ ہی ہوتا ہے اور اس کی میڈیکل تصدیق ابھی باقی ہوتی ہے کہ اس کا شجر و نسب، اس کا گھر، گھر کے باہر پیٹھے پولیس اہلکاروں کی تصویریں اور اس کے گھر کو سیل کرنے اور کنبے کو قرنطینہ کرنے کی خبریں وائرل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نازونعم مییں پلی بڑھی مشہور و معروف کانیکا کو ہتک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو ایک عام سے شخص کو کن حالات سے گزرنا پڑ رہا ہو گا جس کی نہ کہیں سنوائی ہے اور نہ کوئی اثر وروسوخ۔
ایک تو اپنے پیاروں سے چودہ روز دور رہنے کا غم کیا کم ہے کہ اوپر سے اچھوت پن کا احساس اور ہتک آمیز رویہ، یہی وجہ ہے کہ ہر شخص یہ کہتا نظر آتا ہے کہ کرونا سے نہیں صاحب اس کے نتیجے میں ملنے والی ذلت سے ڈر لگتا ہے۔