کوئی موثر علاج نہ ہونے کے وجہ سے کرونا (کورونا) وائرس کے باعث ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگ متاثر ہو چکے ہیں اور اس مہلک بیماری کی تباہ کاریاں تیزی سے جاری ہیں۔
پاکستان میں بھی جمعے کی صبح تک کووڈ 19 کیسز کی تعداد 1200 سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ نو اموات رپورٹ ہوچکی ہیں۔
دنیا بھر میں کووڈ 19 کے علاج اور ویکسین کی تیاری کے لیے تحقیق کی جا رہی ہے۔ تاہم ماہرین مستقبل قریب میں اس سمت میں کسی کامیابی کے امکانات کو رد کرتے ہیں۔
پاکستان میں گذشتہ چند روز سے مہلک بیماری کووڈ۔19 کے علاج کے لیے پیسِو امیونائزیشن (غیر فعال حفاظتی) کا طریقہ استعمال کرنے سے متعلق بحث جاری ہے۔
کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے پیسِو امیونائزیشن کا ذکر پہلی مرتبہ کراچی میں امراضِ خون کے ہسپتال (این آئی بی ڈی) سے منسلک ہیماٹولوجسٹ ڈاکٹر طاہر شمسی نے کیا۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر شمسی سندھ، پنجاب اور وفاقی حکومتوں کو متعدد بریفنگز اور پیپرز دے چکے ہیں۔
وفاقی وزارت صحت کے ایک سینیئر افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈاکٹر شمسی کی تجویز کو بہت سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں جلد ہی کوئی حتمی فیصلہ سامنے آنے کا امکان ہے۔
پیسِو امیونائزیشن کیا ہے؟
انسانی جسم کسی بھی بیماری کے جراثیم کے خلاف مخصوص کیمیاوی مادے بناتا ہے، جنہیں اینٹی باڈیز کہا جاتا ہے۔ یہ اینٹی باڈیز جسم میں داخل ہونے والے بیرونی پروٹین (مثلا ًوائرس، بیکٹیریا یا کوئی بھی دوسرا یک خلیاتی جاندار) کے خلاف جسم کا دفاع کرتی ہیں۔
اس نظام دفاع کو ایکٹیو امیونائزیشن (قدرتی یا فعال نظام دفاع) کہا جاتا ہے۔ کسی بیماری سے صحت یاب ہونے والے مریض کے خون میں اس بیماری کے مخالف اینٹی باڈیز بڑی مقدار میں موجود ہوتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صحت یاب ہونے والے شخص کے جسم سے پلازما (خون کا مائع حصہ) حاصل کر کے اسی بیمار کے متاثرین کو لگا کر انہیں بچایا جا سکتا ہے اور اس طریقہ کار کو پیسِو امیونائزیشن کہا جاتا ہے۔
پیسِو امیونائزیشن کا استعمال پہلی مرتبہ جرمن ڈاکٹر ایمل وان بہرنگ نے 1890 میں کیا، جب انہوں نے ڈپتھیریا کی بیماری سے صحت یاب ہونے والے بچوں کا پلازما بیمار بچوں کے جسم میں داخل کیا، جس سے وہ صحت یاب ہو گئے۔
پیسِو امیونائزیشن کی تکنیک متعارف کرانے پر ڈاکٹر ایمل وان بہرنگ کو 1901 میں طب کا پہلا نوبیل انعام دیا گیا۔
کووڈ 19 اور پیسِو امیونائزیشن
ڈاکٹر شمسی سمجھتے ہیں کہ کووڈ۔ 19 کے مریضوں کا پیسو امیونائزیشن کے ذریعے علاج ممکن ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چین کی مثال دی، جہاں اس تکنیک کو کامیابی سے استعمال کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ چین میں کووڈ۔19 کے صحت یاب مریضوں کا پلازما (خون کا مائع حصہ) حاصل کر کے منجمد کیا گیا اور حسب ضرورت انہیں اس بیماری سے متاثر دوسرے لوگوں کو لگایا گیا۔
چین کے تحقیقی ادارے چائنا بیالوجیکل کی ویب سائٹ کے مطابق: چین میں کووڈ۔19 کے تقریباً 250 مریضوں پر پیسِو امیونائزیشن کا طریقہ استعمال کیا گیا اور اس سے بیماروں کو افاقہ ہوا۔
چائنا بیالوجیکل کے نائب سربراہ آج کل کرونا وائرس سے شدید متاثر یورپی ملک اٹلی میں موجود ہیں، جہاں وہ اطالوی حکام کے ساتھ پیسِو امیونائزیشن کے موثر ہونے اور اٹلی میں استعمال کرنے سے متعلق بات چیت کر رہے ہیں۔
کیا پیسو امیونائزیشن پاکستان میں ممکن ہے؟
پاکستان میں پیسو امیونائزیشن کے استعمال سے متعلق سب سے بڑا سوال بڑی مقدار میں کووڈ۔19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کے پلازما کا حصول ہے۔
وفاقی وزارت صحت سے منسلک ایک ماہر طب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں کووڈ۔19 سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد بہت کم ہے اور ان سے بہت کم مقدار میں پلازما حاصل ہو گا۔
ماہر طب نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا: کووڈ۔19 کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے صحت یاب ہونے والوں سے حاصل ہونے والا پلازما کافی نہیں ہو گا۔
تاہم ڈاکٹر شمسی کہتے ہیں کہ چین میں پلازما بڑی مقدار میں موجود ہے اور ابتدائی طور پر پلازما چین سے درآمد کیا جا سکتا ہے۔
انہوں کا مزید کہا کہ کچھ عرصے میں پلازما کی کافی مقدار پاکستان میں ہی ملنا شروع ہو جائے گی اور پاکستان میں کووڈ۔19 کے مریضوں کی ضرورت پوری ہو سکے گی۔
لاہور میں شوکت خانم کینسر ہسپتال سے منسلک ڈاکٹر سمعیہ نظام الدین کا کہنا ہے کہ کووڈ۔19 کے صحت یاب ہونے والے افراد کو خون دینے کے لیے رضا مند کرنا کافی مشکل ہو گا۔
'چین کے پاس پیسِو امیونائزیشن کے بڑی تعداد میں ماہرین موجود ہیں اور وہاں یہ مہارت رکھنے والے ادارے بھی ہیں۔'
ڈاکٹر سمعیہ نے سوال اٹھایا کہ پاکستان میں کون سا ادارہ اتنے بڑے پیمانے پر صحت یاب ہونے والے افراد کے جسم سے خون حاصل کرے گا، اس کی سکریننگ کرے گا، پلازما الگ کرے گا اور پھر اسے استعمال سے قبل منجمد کرے گا؟
ان کے خیال میں اس سارے عمل کومکمل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل کی ضرورت ہو گی۔
اسلام آباد انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سے منسلک ڈاکٹر محمد سلمان کا کہنا تھا: کووڈ۔19 کے لیے پیسو امیونائزیشن کا استعمال چین میں بھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں کہیں سے بھی اس تکنیک سے متعلق ٹرائلز کی اطلاعات نہیں ہیں۔ 'کوئی ایسی شہادت نہیں کہ اس طریقے کو کووڈ۔19 کے علاج کے لیے باقاعدہ استعمال کیا گیا ہو۔'
ڈاکٹر محمد سلمان نے خدشہ ظاہر کیا کہ صحت مند ہونے والے افراد کے خون کی سکریننگ میں معمولی سے غلطی مریضوں کو کسی نئی بیماری میں مبتلا کر سکتی ہے۔
تاہم ڈاکٹر شمسی نے وضاحت کی کہ کووڈ۔19 کے لیے پیسو امیونائزیشن کی تکنیک استعمال کرنے کے لیے بین الاقوامی معیار کے پروٹوکول بنائے جائیں گے، جس کی منظوری ملک کی کسی بائیو ایتھکس کمیٹی سے لینا ہو گا اور ماہرین کی کسی ادارے یا کمیٹی کے ذریعے یہ کام کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کوئی ادارہ یا شخص اپنے طور پر پیسو امیونائزیشن کے لیے کسی کے جسم سے خون حاصل نہیں کر سکتا اور نہ کسی مریض کو پلازما لگایا جا سکتا ہے، ایسا صرف حکومت کی اجازت سے ہی ہو گا۔
'پیسو امیونائزیشن کا طریقہ علاج صرف ایسے مریضوں پر استعمال کیا جائے گا جن کی حالت بہت خراب ہو گی۔ ایسے مریض جن کے پھیپھڑے یا دل اس بیماری سے بہت زیادہ متاثر ہو چکے ہوں۔'
انہوں نے کہا کہ امریکہ کا صحت سے متعلق ادارہ ایف ڈی اے (فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن) کووڈ۔19 کے علاج کے لیے 12 ریاستوں کے ہسپتالوں میں پیسو امیونائزیشن کی تکنیک متعارف کرانے پر غور کر رہا ہے۔
سائنس اور طب سے متعلق مقالے شائع کرنے والی ویب سائٹ سائنس ڈائریکٹ پر ہیرالڈ مارکوٹ اور لینارٹ ہیمارسٹریم کے پیسو امیونائزیشن پر چھپنے والے مقالے میں کہا گیا ہے کہ پیسو امیونائزیشن فوری لیکن قلیل مدتی تحفظ فراہم کرتا ہے جو کئی ہفتوں یا زیادہ سے زیادہ تین یا چار ماہ تک جاری رہتا ہے۔