حکومت پاکستان کی جانب سے کرونا (کورونا) وبا کی روک تھام کے لیے وائرس سے متاثرہ افراد کا موبائل فون ڈیٹا ان کی اجازت کے بغیر استعمال کرنے کی خبروں پر شہروں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
کئی صارفین نے بتایا ہے کہ حکومت ان کے موبائل فون ڈیٹا کی مدد سے ان کی لوکیشن اور کال ریکارڈز تک رسائی حاصل کر رہی ہے۔ تاہم قانون کے ماہرین نے اس کے اخلاقی اور قانونی ہونے سے متعلق سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل آئینِ پاکستان میں عوام کو دیے گئے حقوق کی بنا پر غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے۔
کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد کے ایک رہائشی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے گھر میں کو وڈ 19 کے تین مریض تھے جو ہسپتال سے صحت یاب ہو کر اب گھر آ چکے ہیں، مگر پچھلے چند دنوں سے ان کے کچھ خاندان والوں، دوستوں اور پڑوسیوں کو کرونا الرٹ کے نام سے ایک ایس ایم ایس میسج موصول ہو رہا ہے، جس سے وہ پریشانی میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ میسج موصول ہونے کے بعد کئی لوگوں نے موبائل ٹریسنگ کے خوف سے ان سے رابطہ منقطع کر دیا ہے۔
حال ہی میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے ملک کے بیشتر حصوں میں کئی لوگوں کو ’کرونا الرٹ‘ کے نام سے ٹیکسٹ میسج ارسال کیے گئے۔
انگریزی میں جاری اس میسج میں لکھا ہے: ’اس بات کا امکان ہے کہ آپ پچھلے 14 دنوں میں کرونا وائرس کے کسی تصدیق شدہ کیس سے رابطے میں آئے ہیں، لہٰذا آپ سے درخواست کی جاتی ہے کہ ضروری احتیاتی تدابیر اپنائیں اور بخار، کھانسی اور سانس لینے میں دشواری یا جسمانی تکلیف جیسی علامات کی صورت میں براہ کرم 1166 پر فون کریں: وزارتِ صحت۔‘
پی ٹی اے کے ترجمان خرم مہران نے ان ایس ایم ایس پیغامات کی تصدیق کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ یہ پیغام وزارتِ صحت کی ہدایت پر صرف مخصوص لوگوں کو بھیجے جا رہے ہیں۔
کن لوگوں کے موبائل ٹریس کیے جا رہے ہیں؟
جب پی ٹی اے کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ میسج بھیجنے کے لیے لوگوں کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے، تو انہوں نے بتایا کہ کو وڈ 19 کے مریضوں کے شناختی کارڈ پر رجسٹرڈ موبائل نمبر پر رابطہ کرنے والے افراد کو یہ میسج بھیجا جاتا ہے۔
'ان مریضوں کی پچھلے کچھ دنوں کی موبائل ہسٹری دیکھ کر معلوم کیا جاتا ہے کہ وہ کن علاقوں میں سفر کرچکے ہیں اورکن لوگوں سے رابطے میں رہے ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’وزارتِ صحت کی درخواست پر یہ میسیج اس لیے بھیجا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو آگاہ کیا جا سکے کہ ان کے علاقے میں کرونا وائرس کا کوئی مریض موجود ہے یا ان کے رابطے میں آ چکا ہے لہٰذا وہ فوری طور پر احتیاطی تدابیر اپنائیں۔‘
جب پی ٹی اے کے ترجمان یہ پوچھا گیا کہ کرونا وائرس کے مریضوں اور ان کے اطراف لوگوں کا موبائل ڈیٹا کی کب تک نگرانی کی جائے گی تو ان کا کہنا تھا ’فی الحال یہ بتانا ممکن نہیں۔ اس سے قبل ہم ٹریول ہسٹری والے افراد کو بھی اس طرح کے میسج بھیج رہے تھے لیکن ان کیسوں میں کمی آنے کے باعث اب وہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ اسی طرح سے جب تک مقامی کیسوں میں کمی نہیں آ جاتی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘
کیا بلا اجازت موبائل ڈیٹا کی مانیٹرنگ اخلاقی اور قانونی طور پر درست ہے؟
کرونا وبا کی روک تھام کے لیے اس وقت کئی ملک کال ڈیٹا ریکارڈنگ ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل کانٹیکٹ ٹریسنگ سسٹم کا استعمال کر رہے ہیں، جس کے بعد دنیا میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ کیا کرونا وبا کی روک تھام کے لیے صارفین کی نجی معلومات تک رسائی اخلاقی طور پر صحیح ہے؟
سماجی کارکن اور ڈیجیٹل رائٹس کی رضاکار نگہت داد نے کہا کہ کرونا وبا کی روک تھام کے لیے اس وقت وہ ملک بھی موبائل ٹریسنگ یا سرویلینس کا استعمال کررہے ہیں جہاں ڈیٹا پروٹیکشن کے قوانین واضح طور پر موجود ہیں۔
'پاکستان میں ایسے قوانین موجود ہیں اورنہ ہی یہاں لوگوں کو اپنی پرائیویسی کے حقوق سے متعلق آگاہی ہے۔ اس صورت میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو آگاہ کریں کہ کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے ان کے موبائل فونز ٹریک کیے جا رہے ہیں۔‘
نگہت داد نے بتایا کہ کئی لوگ ان سے رابطے کر رہے ہیں جنہیں پی ٹی اے کا ٹیکسٹ میسج موصول ہوا ہے۔' اس میسج کی وجہ سے کئی افراد خوف میں مبتلا ہیں اور وہ کرونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے کے باوجود ٹیسٹ کروانے نہیں جا رہے کیوں کہ انہیں ڈر ہے کہ اگر ٹیسٹ کے نتائج مثبت آ گئے تو ان کی اور ان کے اہل خانہ کی نگرانی کی جائے گی۔'
ماہرِ قانون بیرسٹرعلی طاہر نے وضاحت کی کہ آئینِ پاکستان کی شق 14 کے مطابق پرائیویسی یا رازداری پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ کی دفعہ 38 کے مطابق کوئی ادارہ یا کوئی فرد اگر کسی شخص کی ذاتی معلومات بغیر رضامندی کے ظاہر کرتا ہے تو یہ جرم تصور ہو گا۔
’یہ رسائی صرف جوڈیشل وارنٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے لیکن وہ بھی صرف ان حالات میں جب کسی جرم کی تحقیقات کرنی ہوں۔ جہاں تک ڈیٹا پروٹیکشن قوانین کی بات ہے تو اس حوالے سے ایک بِل پارلیمنٹ میں موجود ہے لیکن وہ ابھی تک منظور نہیں ہوا۔'
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں دوسرے ملکوں کے برعکس ڈیٹا پروٹیکشن قوانین تو موجود نہیں لیکن آئینِ پاکستان کے دیے گئے حقوق کی بنا پر اس عمل کو غیر قانونی کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں موبائل ٹریسنگ کیسے ہوتی ہے؟
موبائل فون کی ٹریسنگ کے لیے مختلف طریقے استعمال ہوتے ہیں، مثلاً موبائل کیریئرز سیل سائٹ انفارمیشن (سی ایس ایل آئی) استعمال کرتے ہوئے موبائل کی لوکیشن کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے۔
جیسے ہی کوئی موبائل فون ایک سیل ٹاور سے دوسرے سیل ٹاور کی جانب سفر کرتا ہے تو موبائل نیٹ ورک کال ڈیٹا ریکارڈز (سی ڈی آر) کی شکل میں وقت اور مقام کے ساتھ کالز، ایس ایم ایس اور ڈیٹا کے استعمال جیسی معلومات بھی ریکارڈ کر لیتا ہے۔
یہ ممکن ہے کہ کال ڈیٹا ریکارڈز کے ذریعے کرونا وائرس کے مریضوں کے ساتھ ساتھ ان کے ارد گرد رہنے والوں اور ان کے رابطے میں آنے والے افراد کا ڈیٹا ریکارڈ کیا جا سکے۔
پاکستان میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال عام ہے۔ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے مطابق پنجاب پولیس کا محکمہ انسداد دہشت گردی بڑے جرائم کی روک تھام کے لیے اس سسٹم کی مدد لیتا ہے۔
مزید کن ملکوں میں کرونا وبا کی روک تھام کے لیے نگرانی کا سلسلہ جاری ہے؟
پاکستان کے علاوہ جنوبی کوریا، چین، سنگاپور اور ہانگ کانگ وغیرہ میں بھی حکام شہریوں کے موبائل ڈیٹا کی سکریننگ کر رہے ہیں۔
جنوبی کوریا میں سرکاری ایجنسیاں سرویلنس کیمروں کی فوٹیج، سمارٹ فونز کی لوکیشن اور کریڈٹ کارڈز کے ریکارڈ استعمال کر رہی ہیں تاکہ کرونا وائرس کے مریضوں کی نقل و حرکت اور وائرس کی منتقلی کے حوالے سے معلومات حاصل کی جاسکیں۔
اس طرح اٹلی اور اسرائیل میں بھی شہریوں کے موبائل فونز کی لوکیشن کا ڈیٹا استعمال کیا جارہا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ شہری سرکاری لاک ڈاؤن کی کتنی پابندی کررہے ہیں اور کتنے افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔
سنگاپور کی حکومت نے ایک سمارٹ فون ایپ لانچ کی ہے جو ان افراد کی شناخت کرنے میں مدد کرتی ہے جن کا رابطہ کرونا وائرس سے مریضوں سے ہو چکا ہے۔