پاکستان کے شہر لاہور میں ایک نجی کمپنی نے چین اور ترکی کے طرز کا ایک واک تھرو گیٹ بنا لیا ہے جس میں سے گزرنے پر جسم پر جراثیم کش دوا کا سپرے ہوتا ہے۔
انجینیئر کلیم اللہ چوہدری کا دعویٰ ہے کہ اس سے ممکنہ طور پر جسم پر موجود تمام جراثیم کو مارا جا سکتا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں کلیم اللہ نے بتایا کہ کرونا (کورونا) وائرس کا علاج تو نہیں آیا لیکن احتیاطی تدابیر پر کام کیا جا سکتا ہے اور اُسی ایک تدبیر پر انہوں نے کام کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اُن کے دوست چین میں موجود ہیں اور انہوں نے وہاں ایسا ہی تجربہ کیا جو کہ کامیاب ہوا۔ کلیم اللہ نے کہا کہ کرونا وائرس کی وبا پاکستان میں پھیلنا شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے دوست سے چین میں رابطہ کر کے واک تھرو گیٹ بنانے کا طریقہ پوچھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے گذشتہ ایک ہفتہ اس پر کام کیا اور پہلا ہی تجربہ کامیاب رہا بلکہ ’چین اور ترکی میں بننے والے جراثیم کش واک تھرو گیٹ سے زیادہ اچھا بنایا ہے۔‘
یہ گیٹ کتنا موثر ہے؟
کلیم اللہ نے کہا کہ اس میں استعمال ہونے والی دوا میں کلورین، میتھنول، ڈیٹول اور پانی کا مکسچر ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کلورین جراثیم کو ختم کرنے کے لیے مستند تصور کی جاتی ہے اور یہ اگر وائرس کو مکمل طور پر ختم نہ بھی کرے تو اس کو اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ وائرس نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہتا۔
اس بارے میں طبی رائے لینے کے لیے انڈپینڈنٹ اردونے اسلام آ باد کے پمز ہسپتال کے ڈاکٹر اشعر سے رابطہ کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کیا کہ کلورین ملا محلول جراثیم کے خلاف کتنا موثر ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ بہت موثر ہے اور ہسپتالوں میں بھی مریض کے استعمال کی اشیا یا کمرہ جراثیم سے پاک کرنے کے لیے کلورین میتھنول ملے محلول سے بنے سپرے کا استعمال کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کلیم اللہ نے بتایا کہ یہ سپرے لیبارٹری ٹیسٹد ہے اور وہی فارمولا استعمال کیا گیا جو لیبارٹری میں جراثیم جش سپرے بنانے میں کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ اس واک تھرو گیٹ سے گزریں گے تو یہ آپ پورا نہیں بھگوئے گا بلکہ پھوار کی مانند نکلے گا۔ اس میں موشن سینسر لگے ہیں اور سپرے تب ہی نکلےگا جب آپ داخل ہو جائیں گے۔ اس میں سے سپرے 20 سیکنڈ تک جاری رہے گا جس دوران 70 سے 100 ملی لیٹر سپرے نکلے گا۔
کلیم اللہ کے مطابق واک تھرو کے ساتھ ٹینک منسلک ہو گا جس میں محلول ہو گا اور یہ ایک گھنٹے مسلسل چلنے سے سات لیٹر سپرے استعمال ہو سکتا ہے۔
اس گیٹ کو بنانے کی لاگت پر بات کرتے ہوئے کلیم اللہ نے بتایا کہ پاکستان میں اس طرح کی ٹیکنیکل چیز بنانے میں کافی مسائل ہوتے ہیں کیونکہ اس کے لیے درکار اشیا کی فراہمی آسان نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مکمل یونٹ میں موشن سینسر اور خود کار نظام ہو گا اور اس کو بنانے اور نصب کرنے کی قیمت دو لاکھ ہو گی۔
جراثیم کش واک تھرو گیٹ کہاں کہاں لگایا جا سکتا ہے؟
کلیم اللہ نے بتایا کہ ابتدائی طور پر ترجیح یہی ہے کہ اس کو مختلف ہسپتالوں، پولیس، ریسکیو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دفاتر پر لگایا جائے تاکہ یہ ان تمام افراد کو محفوظ رکھ سکے جو براہ راست کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ دو دن میں چار ایسے گیٹ تیار کر سکتے ہیں اور حکومتی تعاون کے بعد اس میں مزید تبدیلیاں بھی لائی جائیں گی۔
کلیم اللہ نے بتایا کہ اس سلسلے میں گورنر پنجاب سے بھی ملاقات ہوئی ہے جنہوں نے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے لیے اس گیٹ کا آرڈر دیا ہے جبکہ لاہور کی دیگر یونیورسٹیز نے بھی آرڈر دے دیے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہسپتالوں میں اس گیٹ کو لگانے کے لیے ان کی وزیر صحت یاسمین راشد سے بھی ملاقات طے ہے۔