ملک بھر میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور مارکیٹ سے ہینڈ سینیٹائزر کی کمی کے پیش نظر مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک کم قیمت اور اعلیٰ میعار کا سینیٹائزرر تیار کیا ہے اور اگر حکومت انہیں مزید کمیکل مہیا کرے تو وہ چند گھنٹوں میں ہزاروں لیڑ اور بنا لیں گے۔
یونیورسٹی میں مائیکروبیالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر حاظر رحمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے معیار کے مطابق تیار شدہ سینیٹائزرر کو بہت کم قیمت میں تیار کیا ہے اور جو مارکیٹ میں موجود سینیٹائزرر سے معیار میں اعلیٰ اور قیمت میں پانچ گنا کم ہوگا۔
دنیا بھر میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی وبان ے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے جہاں اب تک 800 سے زائد کیسز ریکارڈ ہو چکے ہیں اور ایک ڈاکٹر سمیت چھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔عوام سے بار بار اپیل کی جا رہی ہے کہ اپنے گھروں میں رہیں اور وبا سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر میں ہاتھ دھونا، ماسک پہننا اور ہینڈ سینیٹائزرر کا استعمال اپنائیں۔
جرمنی سے مائیکروبیالوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر حاظر رحمان عبدالولی خان یونیورسٹی کے مائیکروبیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ڈبلیو ایچ او کے فارمولے کے مطابق بنایا گیا ہینڈ سینیٹائزرر کافی موثر ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حاظر رحمان کو سینیٹائزرر بنانے کا خیال تب آیا جب وہ خود اسے خریدنے گئے اور پتہ چلا کہ مارکیٹ دستیاب نہیں اور اگر کہیں مل رہا ہے تو وہ بھی مہنگے دام۔
انہوں نے کہا: ’موجودہ حالات میں تو لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر کاروباری افراد پیسے بنا رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گھر واپس آنے پر انہوں سینیٹائزرر پر موجود سائنسی لیٹرریچر پڑھا اور اپنے پی ایچ ڈی کے طلبہ کے ساتھ مل کر لیباٹری میں ڈبلیو ایچ او کے بتائے گئے فرامولے کے مطابق ایک اعلیٰ کوالٹی سینیٹائزرر تیار کیا۔
ڈاکٹر حاظر رحمان نے بتایا کہ انہوں تیار کردہ سینیٹائزرر کو قرنطینہ مراکز میں کام کرنے والے سٹاف اور دیگر افراد کو رضاکارانہ طور پر دیا جبکہ یونیورسٹی میں موجود سکیورٹی گارڈ اور پولیس سٹاف کو بھی دیا تاکہ وہ اپنی حفاظت کے لیےاستعمال کر سکیں۔
انہوں نے کہا : ’ڈبلیو ایچ او کے میعار کے مطابق سینیٹائزرر پر بہت کم خرچہ آتا ہے۔ میں نے جو سینیٹائزرر بنایا ہے اس میں ایک لیٹر پر ایک ہزار روپے خرچہ آتا ہے اور سو ملی لیٹر کی ایک بوتل سو روپے میں مل سکتی ہے جبکہ اس وقت مارکیٹ میں سو ملی لیٹر کی ایک بوتل کی قیمت چار سو سے پانچ سو روپے ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسے بالکل ڈبلیو ایچ او کے میعار کے مطابق بنایا ہے، یعنی ایتھانول، ڈسلٹلڈ پانی اور گلیسرول کی اتنی ہی مقدار ہے جتنی ڈبلیو ایچ او نے سیٹ کی ہے۔
ڈاکٹر حاظر رحمان کا کہنا تھا کہ اب انہوں یونیورسٹی میں موجود ایتھانول کے سٹاک سے رضاکارانہ طور پر سینیٹائزرر بنا دیا ہے اور اسے یونیورسٹی میں قائم قرنطینہ سینٹر اور سکیورٹی گارڈز اور پولیس کو فراہم کر دیا ہے۔ ’ اب اگر حکومت بلک میں سینیٹائزرر استعمال کرنا چاہتی ہے تو صرف ہمیں ایتھانول فراہم کر دے، باقی کیمیکل ہمارے پاس ہیں۔ ہم اپنی خدمات پیش کرتے ہیں جس سے ہم بہت آسانی کے ساتھ تین ہزار سے پانچ ہزار سییناٹائزر بنا سکتے ہیں اور اس طرح پانچ ہزار خاندانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔‘