کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر پاکستان کی فضائی حدود بند ہونے کی وجہ سے ترکی کے شہر استنبول میں پھنسے 200 سے زائد پاکستانیوں نے وزیر اعظم عمران خان سے درخواست کی ہے کہ انہیں جلد سے جلد وطن واپس بلا لیا جائے یا کم از کم ترکی میں موجود پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے انہیں رہائش، کھانے پینے کی اشیا اور ضروی ادویات فراہم کی جائیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے موسیٰ کلیم اللہ جو اپنی اہلیہ لائبہ کے ساتھ ترکی گھومنے آئے تھے، نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہو کہا: ’میں اپنی فیملی کے ساتھ 14 مارچ کو ترکی آیا تھا اور 23 مارچ کو ہماری واپسی کی فلائٹ تھی لیکن پاکستان کی فضائی حدود بند ہونے کی وجہ سے ہم واپس نہیں جاسکے اور ترکی میں ہی پھنس گئے ہیں۔ میرے بچے اس وقت مجھ سے دور ہیں، میری آٹھ ماہ کی بیٹی اور تین سال کا بیٹا اس وقت کراچی میں میری والدہ کے پاس ہیں۔‘
ترکی میں پیش آنے والے مسائل کے حوالے سے ان کا مزیذ کہنا تھا: ’ہم نے رہائش، کھانے پینے کی اشیا اور کچھ ادویات کے لیے پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا تھا لیکن انہوں نے ہمیں کوئی خاص جواب نہیں دیا، بلکہ مالی امداد کے حوالے سے ہمیں یہ بتایا گیا کہ سفارت خانے کے پاس زکوۃ کے پیسوں کے علاوہ کوئی فنڈز موجود نہیں ہیں۔ ہم نے زکوۃ کے پیسے لینے سے انکار کردیا۔ ابھی ہم یہاں اپنی مدد آپ کے تحت ایک فلیٹ میں مقیم ہیں جو ہوٹل نہ ملنے کے باعث ہم نے 4 اپریل تک کرائے پر لیا ہے۔ ترکی میں کرونا وائرس کا معاملہ بھی کافی سنگین ہے، اس لیے ہماری وزیر اعظم سے گزارش ہے کہ ہمیں جلد سے جلد پاکستان واپس بلا لیا جائے۔‘
ترکی میں پھنسے لوگوں میں 21 افراد پر مشتمل ایک خاندان اور 27 اور 29 افراد کے دو الگ الگ سیاحوں کے گروپس بھی موجود ہیں۔ ان میں سے 29 سیاحوں کے گروپ میں موجود افراد نے ہمیں ترکی میں پیش آنے والے مالی مسائل کے حوالے سے بتایا، جن کا تعلق سندھ کے مختلف شہروں سے ہے۔ سنگین مالی مسائل کے باعث پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے ان افراد کو دو وقت کا کھانا فراہم کیا جارہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سندھ کے علاقے بدین سے تعلق رکھنے والے اس گروپ کے نمائندے محمد راشد میمن کا کہنا تھا: ’ہم ایک کمپنی کے ساتھ وزٹ ویزا پر ترکی کے ٹور پر صرف سات دن کے لیے آئے تھے۔ ہماری پاکستان واپس آنے کی فلائٹ 21 مارچ کو تھی لیکن اس دن جب ہم استنبول ایئرپورٹ پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ ہماری فلائٹ پاکستان نہیں جارہی جس کے بعد ترکش ایئرلائن والوں نے ہمیں 25 مارچ کے ٹکٹس دیے۔ ہمیں اگلے دن پتہ چلا کہ 22 تاریخ کو ترکش ایئرلائن کی ایک فلائٹ پاکستان گئی ہے جس میں صرف چند سفارت کار موجود تھے۔ جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے ہوئے تھے انہوں نے لاک ڈاؤن کے باعث ہم سے کمرے بھی خالی کروالیے۔‘
محمد راشد نے مزید بتایا: ’اب ہم جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں یہاں سو سے زائد پاکستانی مزید رکے ہوئے ہیں جن کی فلائٹس ہماری طرح منسوخ ہوگئی تھیں۔ یہاں زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جن کے پاس پیسے ختم ہوچکے ہیں، کئی لوگ شوگر اور دل کے مریض بھی ہیں۔ ہم جو دوائیاں کھاتے تھے وہ ختم ہوچکی ہیں اور یہاں نہیں مل رہیں۔ ہمارے ساتھ موجود تمام لوگ بہت پریشان ہیں اور وہ جلد سے جلد اپنے ملک واپس جانا چاہتے ہیں لیکن ہماری حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ ہماری حکومت سے اپیل سے کہ ہمیں جلد سے جلد یہاں سے نکالا جائے۔‘
چند روز قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا اور پاکستانی شہریوں کا خیال رکھنے پر ترکی کی حکومت کا شکریہ ادا کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ اس حوالے سے ان کی ترکی کے وزیرِ خارجہ میولٹ اووسوگلو سے گفتگو ہوچکی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی پروازیں شروع ہوتے ہی ترکی میں پھنسے پاکستانیوں کو وطن واپس بھیج دیا جائے گا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ترکی میں پاکستانی سفارت خانے کو فوری طور پر تمام پھنسے ہوئے پاکستانیوں سے رابطہ کرنے کی ہدایت بھی کی تھی