پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس کے باعث مکمل لاک ڈاؤن تو نہیں مگر فیکٹریاں، صنعتیں اور غیرضروری دکانیں بند ہیں جس کی وجہ سے دہاڑی دار محنت کش اور مزدوروں کے لیے بھی کام نہیں۔ ایسے حالات میں لاکھوں محنت کش افراد کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم حکومت کی جانب سے تاحال ایسے افراد کے لیے کوئی مثبت قدم نہیں لیا گیا ہے، بس یہی دعویٰ سامنے آیا ہے کہ ان محنت کشوں کی فہرستیں بن رہی ہیں جس کے بعد ہی ان کو امداد دی جائے گی۔
پنجاب کے وزیر انڈسٹریز میاں اسلم اقبال اس حوالے سے کہتے ہیں کہ موجودہ بحران میں حکومت کی کوشش ہے کہ محنت کش طبقے کو گھروں میں خوراک کے وسائل پہنچائے جائیں، جس کے لیے صوبائی سطح پر ٹاسک فورس بنا دی گئی ہے جو تین دن میں محنت کشوں کی فہرستیں تیار کر کے وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کرے گی۔ اس کے بعد ان کی مالی امداد کی جائے گی۔
تاہم فیڈرل پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر میاں انجم نثار کا کہنا ہے کہ دو کروڑ سے زائد فیکٹری ڈیلی ویجز ملازمین مالی بد حالی کا شکار ہیں جس کے بعد صنعت کاروں سے اپیل ہے کہ وہ اپنے طور پر غریب ملازمین کی مالی معاونت جاری رکھیں۔
محنت کش رجسٹرڈ کیوں نہیں؟
لیبر فیڈریشن کے رہنما دلاور عباس نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ فیکٹریوں اور لوڈنگ ان لوڈنگ سمیت مختلف شعبوں میں کام کرنے والے 90 فیصد محنت کش ایسے ہیں جو محکمہ سوشل سکیورٹی تک میں رجسٹرڈ نہیں کیے گئے، کیونکہ ان سرمایہ داروں کو ان دہاڑی دار محنت کشوں کو سرکاری اعلان کے مطابق کم از کم 17 ہزار روپے ماہانہ اجرت نہ دینا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ لاکھوں محنت کش اور ان کے بچے فاقوں پر مجبور ہیں، کئی تو مخیر حضرات کی مدد سے دو وقت کی روٹی کے منتظر ہیں جبکہ صنعت کاروں نے جو ان کے مستقل یا کنٹریکٹ ملازمین تھے صرف ان کو ہی تنخواہوں کی ادائیگی کا یقین دلایا ہے لیکن ڈیلی ویجز ملازمین کا رواں ماہ کے آخری ایام میں بھی کام نہیں لگا جو روزانہ کی کمائی روزمرہ کھانے پینے کی اشیا خرید کر گزارا کرتے ہیں۔
دلاور عباس نے مطالبہ کیا کہ اس غیر معمولی صورت حال میں محنت کشوں اور ان کے بچوں کو راشن کی فراہمی فوری شروع کی جائے ورنہ ان کا زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا: 'محنت کش موت سے پہلے بھوک سے مر رہے ہیں حکومت فہرستیں بنانے میں لگی ہے۔'
نائب صدر ملتان چیمبر آف کامرس خواجہ بدر منیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ہماری انڈسٹری سمیت کئی فیکٹری مالکان اپنے ملازمین کو ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی بنانے کی کوشش تو کر رہے ہیں لیکن جب انڈسٹری ہی بند پڑی ہے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ کاروبار شروع کب ہونا ہے تو وہ بھی کتنی مدد کرسکتے ہیں؟'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ سب صنعت کاروں کی کوشش ہے کہ ان کے کسی بھی ملازم کے بقایاجات نہ رکیں اور نوکریاں بھی چلتی رہیں لیکن ڈیلی ویجز ملازمین کی تو واجب الادا رقم کے علاوہ کوئی مدد کرنا مشکل ہے۔
’تاہم یہ بھی پتہ نہیں کہ اس مد میں حکومت صنعت کاروں کی کوئی مدد کرتی ہے کہ نہیں۔ ابھی تک صرف یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ اپنے ملازمین کا مالی خیال رکھیں تو انہیں بینکوں کے قرضوں پر منافع میں چھوٹ دی جائے گی لیکن ابھی کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا، جس سے سرمایہ دار بھی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں۔‘
محکمہ لیبر کے خدشات اور حکومتی اقدامات
ڈائریکٹر محکمہ لیبر رانا جمشید فاروق کہتے ہیں کہ محکمہ لیبر کی جانب سے تمام صنعتی و غیر صنعتی سرمایہ کاروں سے بات کر کہ انہیں ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے ملازمین کا اس بحرانی صورت حال میں نہ صرف کاروباری بلکہ انسانی بنیادوں پر خیال رکھیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اس صورت حال میں کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جب کاروبار ہی بند ہوگا تو ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی ہر صنعت کار کے لیے لمبے عرصہ تک ممکن نہیں۔ ’لہذا جو بھی اس نیک کام میں کردار ادا کرے گا وہ اپنے طور پر ہی کر سکتا ہے کیونکہ حکومتی قوائد و ضوابط بھی ایسے ہمدردانہ تعاون پر کسی کو مجبور کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔‘
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر میاں انجم نثار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملک بھر میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد مستقل اور کنٹریکٹ جبکہ اڑھائی کروڑ سے زائد ڈیلی ویجز ملازمین گھروں میں بیٹھ گئے ہیں، جس سے معاشی نقصان تو ہے ہی ان کے ذاتی مسائل بھی ناقابل بیان ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چیمبرز میں رجسٹرڈ تمام صنعت کاروں اور تاجروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو اس مشکل وقت میں سہارا دیں، اپنے طور پر ہر ایک کردار ادا کر بھی رہا ہے لیکن اس کے باوجود ملازمین کی پریشانیاں مکمل ختم نہیں ہوسکیں۔
’دوسری جانب حکومت نے جو تین سو ارب روپے محنت کشوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے وہ بھی شروع نہیں ہوسکا جبکہ ایک ہفتہ سے زائد دن ہو گئے لاک ڈاؤن جاری ہے۔ حکومت کو چاہیے فوری طور پر امدادی پیکج پر عملی کام شروع کرے۔‘
اسی بارے میں جب صوبائی وزیر صنعت و تجارت میاں اسلم اقبال سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ صوبہ میں 60 ہزار سے زائد چھوٹی بڑی انڈسٹریز ہیں جن میں لاکھوں ملازمین اور محنت کش کام کرتے ہیں، اس بندش سے جو مسائل درپیش ہیں حکومت ان کے تدارک کی حکمت عملی تیار کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ان کی سربراہی میں نو رکنی ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو تین روز میں فیکٹری ملازمین اور دہاڑی دار محنت کشوں کے ناموں کی فہرستیں بنا کر وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کرے گی، جس کے بعد جامع حکمت عملی کے ذریعے ان افراد کی مالی امداد کی جائے گی اور جو اعلان کیا گیا ہے اس کے مطابق چار ہزار روپے فی خاندان ادا کیے جائیں گے۔
ان سے پوچھا گیا کہ اس بحرانی صورت حال میں حکومت امدادی کام عملی طور پر تاخیر سے شروع کیوں کر رہی؟ انہوں نے جواب دیا کہ حکومت پہلے دن سے عملی اقدامات پر ہی کام کر رہی ہے لیکن اس طرح کی وبا پہلی بار پاکستان سمیت دنیا بھر میں آئی ہے تو موثر اقدامات کے لیے تھوڑا وقت درکار ہوتا ہے تاکہ بہتر انداز میں متاثرین کی مدد کی جاسکے۔
’پہلے مرحلے میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے صحت کے شعبے کو فوری متحرک کیا گیا اب لوگوں کی مدد کے لیے تیزی سے کام جاری ہے۔ جلد ہی محنت کشوں تک حکومتی امداد پہنچنا شروع ہو جائے گی۔ محدود وسائل کے باوجود حکومت زیادہ سے زیادہ امداد کو یقینی بنانے کی حکمت عملی بنا رہی ہے۔‘