پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرونا (کورونا) وائرس کی وبا خطرناک حد تک پھیل چکی ہے اور ابھی تک لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے کے علاوہ اس وبا پر قابو پانے کا کوئی حل سامنے نہیں آیا۔ دوسری جانب پاکستان میں تاثر قائم ہے کہ اس وبا کے پھیلاؤ کا سبب دوسرے ملکوں سے واپس آنے والے شہری بنے کیونکہ جتنے افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی ان میں بڑی تعدادایران اور سعودی عرب سے آنے والے زائرین کی تھی۔
علاوہ ازیں گذشتہ ہفتے معلوم ہوا کہ لاہور کے قریبی شہر رائیونڈ میں ہونے والے تبلیغی جماعت کے سالانہ بین الاقوامی اجتماع اور وہاں سے ملک بھر میں تبلیغ کے لیے جانے والے قافلوں کے شرکا میں بھی اس وائرس کے پھیلنے کی تصدیق ہوئی۔
اجتماعات پر پابندی کے باوجود لاکھوں افراد پر مشتمل یہ اجتماع دو روز تک جاری رہا جس میں غیر ملکی بھی شریک تھے۔ اس کے بعد حکومت کی درخواست پر یہ اجتماع منسوخ کر دیا گیا لیکن قافلے ملک بھر میں تبلیغ کی غرض سے روانہ ہوگئے۔اب ان قافلوں کو بھی مختلف علاقوں کی مساجد میں قرنطینہ میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے اور جن لوگوں کے کرونا ٹیسٹ منفی آئے، انہیں واپس گھروں کو جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
رائیونڈ میں اجتماع کو روکا کیوں نہ جاسکا؟
تبلیغ اسلام کے لیے بنائی گئی پاکستان کی عالمگیر تنظیم تبلیغی جماعت کئی سالوں سے لاہور کے قریبی شہر رائیونڈ میں ہر سال اجتماع منعقد کرتی ہے، جس میں نہ صرف مقامی بلکہ دیگر ممالک سے بھی لوگ شرکت کرتے ہیں۔
اس سال مارچ کے آخر میں تین روزہ اجتماع شیڈول کے مطابق منعقد کیا گیا جبکہ اس سے پہلے ہی چین، امریکہ اور یورپ سمیت پاکستان میں بھی اجتماعات پر پاپندی لگ چکی تھی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں اجازت کس نے دی؟ اس سوال کے جواب میں ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید نے بتایا کہ 'جب اجتماع کا انعقاد ہوا تو اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ یہ اس طرح بھی پھیل سکتا ہے۔ اس وقت پھیلاؤ میں اتنی تیزی بھی نہیں تھی، یہی وجہ ہے کہ تبلیغی جماعت کی انتظامیہ نے معمول کے مطابق اجتماع کا آغاز کیا لیکن جب حکومت کو ادراک ہوا تو اجتماع کی پہلی نشست کے بعد ہی انتظامیہ سے درخواست کی گئی کہ وہ اجتماع منسوخ کر دیں تو انہوں نے اسے فوری منسوخ کردیا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسرت جمشید نے مزید بتایا: 'لیکن ان کے قافلے ملک بھر میں روانہ ہوگئے جس سے تبلیغی جماعت کے مرکز رائیونڈ اور کئی دوسرے شہروں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی تو جتنے افراد میں وائرس پایا گیا انہیں ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا جبکہ باقی کو مساجد میں ہی 14 دن کے لیے قرنطینہ میں رہنے کی ہدایت کی گئی۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'ہم ایران سے بذریعہ تفتان بارڈر، سعودی عرب سے آنے والوں یا تبلیغی جماعت کے اراکین کو اس لیے ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے کہ وہ جان بوجھ کر نہیں بلکہ قدرتی طور پر موجب بنے۔'
مسرت جمشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ 'ہم علیحدہ سے ان افراد میں کرونا وائرس کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد بتانے کی بجائے کُل تعداد بتارہے ہیں تاکہ اس سے فرقہ واریت کی ہوا نہ پھیلے۔'
انہوں نے کہا کہ 'زائرین ہوں یا تبلیغی جماعت کے اراکین، حکومت کے لیے سب برابر ہیں، انہیں مکمل طور پر طبی سہولیات دی جارہی ہیں۔ جن کو علیحدہ رکھا گیا ہے انہیں 14 دن بعد معمول کے مطابق واپس جانے کی اجازت ہوگی۔ اس معاملے میں تبلیغی جماعت کی انتظامیہ بھی تعاون کر رہی ہے۔'
تبلیغی جماعت انتظامیہ کی حکمت عملی
تبلیغی جماعت کے مرکز اور مختلف شہروں میں جانے والے قافلوں سے کرونا وائرس پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر انتظامیہ خود بھی متحرک دکھائی دے رہی ہے۔
تبلیغی جماعت کے مرکزی ترجمان نعیم بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے معمول کے مطابق اجتماع کا انعقاد کیا اور جب حکومت کی جانب سے منسوخی کی ہدایت آئی تو منسوخ کردیا لیکن اندرون و بیرون ملک سے یہاں آنے والے شرکا اپنے قافلے لے کر روانہ ہوتے گئے جبکہ بیشتر کو منع کردیا گیا تھا۔'
انہوں نے بتایا کہ 'یہاں سے قافلوں کی روانگی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر بھی ہوتی کیونکہ اراکین اپنے صوبائی یا ضلعی عہدیداروں کو اعتماد میں لے کر روانہ ہوجاتے ہیں۔'
نعیم بٹ کے مطابق: 'ہم نے رائیونڈ مرکز میں بھی حکومت کو ٹیسٹ کرنے کی اجازت دی اور جن افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی انہیں ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا جبکہ سینکڑوں افراد کو قرنطینہ سینٹرز بھیج دیاگیا۔'
انہوں نے بتایا کہ پانچ سو افراد کو کالا شاہ کاکو قرنطینہ سینڑ میں رکھا گیا ہے، جن میں بیشتر غیر ملکی اراکین ہیں جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد رائیونڈ میں ہی قرنطینہ سینٹر میں موجود ہیں۔
نعیم بٹ نے کہا کہ 'یہ عالمی وبا ہے، کوئی بھی جان بوجھ کر اپنی یا دوسروں کی جان خطرے میں نہیں ڈالتا، اس لیے اس کے پھیلاؤ کا سبب روکنے کے ساتھ ساتھ سب کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'جن علاقوں میں تبلیغی قافلوں کو روک کر 14 روز کے لیے قرنطینہ میں رہنے کو کہا گیا ہے، وہ وہیں موجود ہیں جبکہ جن کے ٹیسٹ منفی آئے ہیں، وہ تمام قافلے اور شرکا واپس گھروں کو بھیجے جا رہے ہیں۔ انتظامیہ نے سب کو واپسی کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔'
ملتان میں بھی تبلیغی جماعت کے مرکز اور جنوبی پنجاب سمیت ملک بھر کے مختلف شہروں میں جہاں تبلیغی جماعت کے قافلے موجود ہیں، انہیں 14 دن کے لیے روک دیا گیا ہے۔ چند روز پہلے لیہ میں تبلیغی جماعت کے قافلے میں شریک صوابی کے ایک شہری نے مسجد سے باہر جانے کی کوشش میں ناکامی پر ایس ایچ او کو چھری مار کر زخمی کردیا تھا، جنہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔
'تبلیغی جماعت سے ظلم و زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی'
دوسری جانب سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویزالہیٰ نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ تبلیغی جماعت سے کسی قسم کا ظلم و زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی۔ 'تبلیغی جماعت پرامن ضرور ہے لیکن لاوارث نہیں، ان پر ظلم اور زیادتی کرکے اللہ کے عذاب کو دعوت نہ دی جائے۔'
انہوں نے کہا: 'یہ جماعت دنیا بھر میں مسلمانوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت اور پوری دنیا میں امن کی داعی ہے، اس کے احباب دنیا کے ہر خطے میں اور ملک میں امن کے سفیر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، یہ ایسی جماعت ہے جس کی تبلیغ سے کہیں اور کبھی بھی کوئی انتشار نہیں پھیلا۔'
چوہدری پرویزالہیٰ نے کہا کہ انہوں نے تبلیغی احباب کے معاملے پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے بھی رابطہ کیا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ 'تبلیغی جماعت کے حوالے سے منفی پروپیگنڈہ بند کیا جائے، جو مہمان یہاں بیرونِ ممالک سے آئے ہیں پنجاب پولیس ان سے کسی قسم کی زیادتی نہ کرے، اپنا رویہ ٹھیک کرے اور مہمانوں سے مجرموں کی طرح برتاؤ نہ کیا جائے۔'
سپیکر پنجاب اسمبلی نے مزید کہا کہ 'جن احباب کو مسجدوں سے اٹھا کر تھانوں میں بند کیا گیا ہے ان کو فی الفور رہا کرکے مسجدوں یا تبلیغی مراکز میں منتقل کیا جائے اور ان مساجد و مراکز کو قرنطینہ قرار دیا جائے اور وہاں ان کے لیے راشن اور سہولیات کا بندوبست کیا جائے۔'