کہتے ہیں محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ پاکستانی سیاست بھی اس مقولے کو سینے سے لگائے مال کی محبت اور اقتدار کی جنگ میں ہر جائز ناجائز حربہ آزماتے ہوئے دو جماعتوں کے درمیان بوکھلاتی رہی۔ پھر یوں ہوا کہ ایک نوجوان ہاتھ میں گیند بلا تھامے سیاست کے سٹیڈیم میں داخل ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستانی سیاست کا مقناطیس بن گیا۔
اس نوجوان کا نام عمران خان تھا، جسے عادت تھی کہ جو کہنا ہے، وہ کر کے دکھانا ہے۔ کرکٹ ٹیم جیتنے کے لیے کھیلتی ہے جبکہ سیاسی کھلاڑی جیتی ہوئی ٹیم کا حصہ بن کر کامیاب نظر آنا چاہتے ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں اور سیاست کے میدان میں بس یہی فرق ہے، جو سمجھنے میں انہیں 23 سال لگے۔
عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے ہی اعلان کر رکھا تھا کہ 'سب کا احتساب کروں گا،' جس پر ان کے دائیں بائیں کھڑے سب کھلاڑی بازو ہلا ہلا کر 'نئے پاکستان' کے ترانے پر جھومتے اور پروازِ تخیل انہیں خود کو اقتدار کی کرسی پر جھومتا ہوا دکھاتی۔ کیا معلوم تھا کہ اقتدار میں آنے کے ٹھیک ڈیڑھ سال میں احتساب کی چکی ان کو بھی لپیٹ میں لے لے گی اور 'کھاتا ہے تو کھلاتا بھی ہے' کا نظریہ جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا۔
شروع شروع میں جب احتساب کا یہ عمل زمین پر اکڑ کر چلنے والے سیاست کے فرعونوں کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا تو ہر طرف ایک شور اٹھا، جسے خوب پیسہ اور وسائل لگا کر میڈیا میں بھی بار بار کہلوایا گیا کہ 'عمران خان انتقام کی آگ میں جل کر اپوزیشن کو بےبنیاد کیسز کا نشانہ بنا رہے ہیں،' اور آہستہ آہستہ جب دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی حکومت نے اپنے وزرا کا بھی باقی سب کی طرح اسی زور و شور سے احتساب شروع کر دیا ہے تو اپوزیشن کا ڈیڑھ سالہ بیانیہ دم توڑ گیا۔
آج عمران خان کا سیاسی قد پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے ماضی کے حکمرانوں کی طرح اپنے لوگوں کے خلاف کیسز دبانے، فائلیں اور ریکارڈ جلانے اور اداروں کو ڈرانے دھمکانے کی بجائے، اداروں کو اتنا خودمختار اور مضبوط کر دیا ہے کہ وہ بلاجھجھک پاکستانی عوام اور ریاستی خزانے کو نقصان پہنچانے والے ہر شخص کو لپیٹ میں لے رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چینی اور آٹا بحران کے ذمہ داران کے خلاف تحقیقات کرنے والے افسر وہی واجد ضیا ہیں، جنہوں نے پاناما کیس پر جے آئی ٹی رپورٹ بنائی تھی، جس کو ہمارے کچھ ساتھی آج تک ماننے کو تیار نہیں، لیکن انہی کی بنائی اس رپورٹ پر خوش ہیں۔
جہانگیر ترین، خسرو بختیار، مونس الہیٰ، مریم نواز، چوہدری منیر وہ نمایاں نام ہیں، جو اس رپورٹ میں سامنے آئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہانگیر ترین نے مسلم لیگ ن کے دور میں 3 ارب روپے میں سے 2.5 ارب روپے کی سبسڈی کمائی لیکن کوئی نہ بولا۔ آج عمران خان کی اپنی حکومت میں 56 کروڑ روپے کی سبسڈی سامنے آئی ہے تو عمران خان نے اپنے عزیز ترین دوست کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔
اگر عمران خان چاہتے تو اپنے سیاسی فائدے کے لیے ایف آئی اے کو خاموش کروا کر میرٹ کا خون کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے تمام فائدے بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کیا۔
انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ مونس الہیٰ کا نام آنے سے پنجاب میں چوہدری برادران حکومت گرا سکتے ہیں، یہ بھی نہ سوچا کہ جنوبی پنجاب سے لوگ وفاق میں دائیں بائیں ہو کر حکومت گرا سکتے ہیں۔ اگر سوچا تو صرف یہ سوچا کہ جس نے اصول شکنی کی ہے، اس کو سزا ملنی چاہیے۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی کارروائی سے پہلے اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے مفصل فرانزک آڈٹ کے نتائج کے منتظر ہیں، جو 25 اپریل تک مرتب کرلیے جائیں گے۔ ان نتائج کے سامنے آنے کے بعد کوئی بھی طاقتور گروہ (لابی) عوامی مفادات کا خون کرکے منافع سمیٹنے کے قابل نہیں رہے گا۔
اللہ عمران خان کو توفیق دیں کہ وہ واقعی اس ملک میں میرٹ کا بول بالا کرکے اس کی تقدیر بدل دیں۔ آمین۔ پاکستان زندہ باد!