قرنطینہ مراکز ہوں یا کرونا (کورونا) وائرس کے خطرے کے پیش نظر لاک ڈاؤن کیے گئے علاقے، ہر وہ جگہ جہاں خطرہ ہے وہاں پولیس موجود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو خطرے سے بچاتے بچاتے کچھ پولیس افسر خود بھی مصیبت کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن آج تک ایک بھی ایسی خبر نہیں آئی کہ کسی پولیس اہلکار نے کہا ہو کہ وہ خطرات کے باعث ملازمت نہیں کرنا چاہتا۔
ایسے حالات میں کہ جب سب کو گھر بیٹھنے کی تنبیہ کی جارہی ہے پولیس اہلکاروں کو گھر بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ ہنوز دفتر جارہے ہیں، ان کی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں اور کوئی اہلکار یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ڈیوٹی پر نہیں جانا چاہتا، کیونکہ اگر پولیس نہیں ہوگی تو کام کیسے ہوگا۔
پاکستان میں مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی کرونا وائرس کی وبا نے سر اٹھانا شروع کیا۔ اس دوران جہاں جہاں قرنطینہ مراکز قائم کے گئے، لاک ڈاؤن کیا گیا یا بھاگ جانے والے مریضوں کو پکڑنا پڑا، تمام معاملات میں پولیس کا بھی ایک بہت بڑا کردار رہا۔
اس کے علاوہ بھی پولیس بہت ساری ذمہ داریاں انجام دے رہی ہے، جس میں افسران سے لے کر پولیس وین کے ڈرائیور تک شامل ہیں۔
خیبر پختونخوا کے گاؤں منگا میں جب سینکڑوں افراد میں کرونا وائرس پائے جانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تو 200 کے قریب سپاہیوں کی ڈیوٹی یہاں لگائی گئی، جب کہ ڈی پی او، ڈی ایس پی، ایس ایچ او، ایس پی آپریشنز اور دیگر افسروں کو روزانہ کی بنیاد پر اس علاقے کا چکر لگانا پڑتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہی ڈیوٹی سرانجام دیتے دیتے دو پولیس افسر بھی کرونا وائرس کا شکار ہوئے جو اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کو قرنطینہ مرکز قرار دیے جانے کے بعد یہاں تقریباً 100 اہلکاروں کی ڈیوٹی لگائی گئی، جب کہ اس وقت پشاور کے علاقے دوران پور کے قرنطینہ مرکز میں 150 پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔
دوران پور میں قائم قرنطینہ مرکز کی ڈیوٹی پر مامور انسپکٹر دیار خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ اس قرنطینہ مرکز میں 152 ایرانی زائرین کو رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس خطرناک تو ہے لیکن انہیں اپنا فرض نبھانا ہے۔
’ہم پوری ایمانداری سے ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ اندر ڈاکٹر ہیں، باہر ہم ہیں۔ عام لوگ کہتے ہیں کہ یہاں وائرس ہے، لیکن مجھے کوئی ڈر نہیں ہے۔ البتہ میرے بچے پریشان ہوتے ہیں کہ ان کے والد باہر جاتے ہیں تو کہیں بیمار نہ ہو جائیں۔‘
انسپکٹر دیار خان نے وائرس سے بچاؤ کے لیے اپنے حفاظتی اقدامات کے بارے بتایا کہ وہ روزانہ یونیفارم کو گرم پانی سے دھوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہاتھ دھونا اور ماسک پہننا بھی ان کا روزانہ کا معمول ہے۔
پولیس حکام کے حوالے سےابھی تک جتنی بھی فوٹیجز سامنے آئی ہیں ان میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ فرنٹ لائن پر ڈیوٹی سرانجام دینے والے زیادہ تر سپاہیوں نے عام سرجیکل ماسک پہنے ہوتے ہیں اور اکثر کے ہاتھوں میں دستانے بھی نہیں ہوتے۔
لیکن اس کے باوجود ابھی تک پولیس کی جانب سے ایسا کوئی مطالبہ بھی سامنے نہیں آیا کہ وہ سپاہی جو فرنٹ لائن پر ہیں اور جو اس خطرے کے سامنے زیادہ ایکسپوز ہوتے ہیں، انہیں خصوصی ماسک، ربڑ کے دستانے اور چشمے فراہم کر دیے جائیں۔