طالبان کی جانب سے افغان حکومت پر 'غیرسنجیدگی' کا الزام عائد کرکے اپنی تین رکنی ٹیم واپس بلائے جانے کے اگلے ہی روز کابل حکومت نے افغان طالبان کے 100 قیدیوں کو رہا کردیا ہے۔
افغانستان کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان قیدیوں کو افغانستان کے صدر کے 11 مارچ کے احکامات کے روشنی میں آج (بدھ کو) رہا کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا: 'قیدیوں کو ان کی صحت، عمر اور باقی ماندہ قید کے دورانیے کو مدنظر رکھ کر رہا کیا گیا ہے اور یہ افغانستان میں امن لانے اور کرونا (کورونا) وائرس پر قابو پانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔'
جاوید نے بتایا کہ رہائی پانے والے قیدی اس فہرست کا حصہ ہیں جو طالبان کے تکنیکی وفد نے کابل میں افغانستان حکومت کے وفد کے ساتھ شیئر کی اور جو اجلاس میں بھی زیر بحث رہی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا: 'ان رہا ہونے والے قیدیوں کی باقاعدہ جانچ پڑتال افغانستان کی نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سیکورٹی (این ڈی ایس) نے کی ہے اور ان سے حلف لیا گیا ہے کہ وہ میدان جنگ میں دوبارہ نہیں جائیں گے۔ دوحہ میں طالبان کے دفتر کی جانب سے بھی افغانستان کی حکومت کو یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ رہا ہونے والے افراد دوبارہ جنگ میں نہیں جائیں گے۔'
جاوید نے بتایا کہ افغانستان کی حکومت امن عمل کو آگے لے جانے کے لیے طالبان کی تکنیکی ٹیم کے ساتھ کام کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔
طالبان کے قطر دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے گذشتہ روز انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ طالبان کا تین رکنی تکنیکی وفد 31 مارچ کو کابل گیا تھا تاکہ وہاں پر قیدیوں کی پہچان اور ان کی رہائی کے حوالے سے افغانستان حکومت کے ساتھ بات کر سکے۔
تاہم انہوں نے بتایا تھا کہ قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے افغانستان حکومت سنجیدہ نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے تکنیکی وفد کو واپس بلا رہے ہیں اور کابل حکومت سے اس پر مزید بات نہیں کریں گے۔
اس حوالے سے افغان حکومت نے موقف اپنایا تھا کہ قیدیوں کی رہائی کے معاملے میں طالبان جلد بازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور دس دنوں میں قیدی رہا کروانا چاہتے ہیں۔
لیکن اب طالبان کی جانب سے تکنیکی وفد واپس بلانے کے ایک ہی دن بعد افغانستان حکومت نے قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ طالبان اپنے 15 کمانڈرز رہا کرنے پر زور دے رہے ہیں لیکن سہیل شاہین نے بتایا تھا کہ یہ 15 افراد کمانڈرز نہیں بلکہ ہمارے قیدی ہیں۔
جب ترجمان جاوید فیصل سے پوچھا گیا کہ ایسا کیا ہوگیا کہ جب افغانستان حکومت قیدیوں کی رہائی کی پوزیشن میں تھی اور طالبان نے اپنا وفد واپس بلا لیا تو انہوں نے بتایا کہ 'اس بارے میں طالبان آپ کو بتا سکیں گے،' تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'رہائی پانے والے قیدیوں میں وہ 15 قیدی شامل نہیں ہیں، جنہیں طالبان پہلی فرصت میں رہا کروانا چاہتے تھے۔'