کرونا (کورونا) وائرس کی تباہ کاریوں نے جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں کو متاثر کیا وہیں کرکٹ بھی متاثر ہوئی ہے۔
کرکٹ کے میدان سونے پڑے ہیں، ہر طرف سناٹا ہے، زندگی اور موت کی کشمکش میں دنیا اس وقت کھیل تماشوں سے زیادہ جانیں بچانے کی فکر میں ہے۔
دنیا بھر میں کھیلوں کی دوسری تنظیموں کی طرح کرکٹ بورڈز اور آئی سی سی اس شش وپنج میں مبتلا ہیں کہ کیا اس سال کرکٹ ہو بھی سکے گی یا نہیں؟ اور وہ سارے منصوبے جو شروع ہوچکے ہیں ان کا کیا ہوگا؟
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اس لحاظ سے کسی حد تک خوش قسمت ہے کہ اس کے ماضی قریب میں زیادہ تر منصوبے مکمل ہوچکے ہیں اور ان سے ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ موصول ہوچکا ہے،۔ لیکن سال رواں کی سرگرمیاں اگر بالکل ختم ہوگئیں تو پھر کیا ہوگا؟
پاکستان کرکٹ بورڈ میں بغیر کسی تگ ودو کے کرسی صدارت پر براجمان ہونے والے احسان مانی کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پی سی بی کے میڈیا رائٹس کی فروخت ہے۔
پچھلا معاہدہ پی ایس ایل کے ساتھ ہی ختم ہوچکا ہے۔ اب تک کا معاہدہ پی ٹی وی اور ٹین اسپورٹس کے ساتھ 149 ملین ڈالرز کے عوض تھا، جس میں بھارت کے ساتھ دو سیریز بھی شامل تھیں جو نہ ہو سکیں اور نتیجے میں معاہدے کے تحت 90 ملین ڈالرز کم ہوگئے، جب کہ اس دوران براڈ کاسٹنگ کے خرچے بھی میڈیا کمپنی کی ذمہ داری تھی۔
پی سی بی کو نیا معاہدہ کرنے میں سب سے بڑی پریشانی کسی موزوں پارٹنر کی تلاش ہے۔ نئے معاہدے کے لیے پیشکشیں طلب کرنے کے بعد حیرت انگیز طور پر صرف ایک ہی کمپنی نے پیشکش کی اور وہ بھی توقعات سے بہت کم۔
یہی مشکلات سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کے بورڈز کے ساتھ بھی ہیں جہاں کوئی میڈیا خریدار موجود نہیں کیونکہ موجودہ حالات میں کرکٹ کو عملی طور پہ عالمی درجے پر کھیلے جانے میں بڑا تعطل آ سکتا ہے اور میڈیا کمپنیاں کوئی رسک لینے کو تیار نہیں۔
پاکستان نے فی الوقت آسٹریلیا کی ایک کمپنی سے خدمات حاصل کی ہیں جو پی سی بی کو موزوں خریدار تلاش کرنے کے لیے معاونت فراہم کرے گی۔ سب سے اہم ایونٹ پاکستان سپر لیگ کے غیر متوقع اختتام نے بورڈ کو بہت مایوس کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بورڈ کے لیے یہ ایک تاریخی موقع تھا جس سے مالی فوائد کے ساتھ مستقبل کے کئی بڑے منصوبے منسلک تھے۔ یہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے باقاعدہ انعقاد کا معاملہ تھا، سب وقت کے ساتھ رک گیا۔
پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ بورڈ کو پی ایس ایل کے رک جانے سے کوئی بڑا نقصان ہوا ہے۔ ان کے مطابق ابتدائی آڈٹ میں نقصان کا اندازہ پانچ سے چھ ملین ڈالرز ہے، لیکن ماہرین اسے 15 ملین ڈالرز تک دیکھ رہے ہیں کیونکہ شاہ خرچ پاکستان بورڈ اس لیگ کے لیے دونوں ہاتھ سے پیسے لٹا چکا ہے اور تمام کھلاڑیوں کو پیشگی ادائیگی ہو چکی ہے جبکہ فرنچائزز کی ادائیگی بھی واجب الادا ہے۔
احسان مانی کہتے ہیں کہ اس وقت ساری دنیا میں کرکٹ مفقود ہے اور ہم سے زیادہ مشکلات انگلینڈ، آسٹریلیا اور بھارت کو ہیں، جہاں آئی پی ایل کی منسوخی نے اربوں ڈالرز کی آمدنی پر پانی پھیر دیا ہے۔ انگش بورڈ کو ملازمین کی تنخواہوں سے پریشانی ہے اور مختلف کاؤنٹیز جن کا انحصار کرکٹ سپانسر شپ پر ہے وہ بھی شدید مشکلات میں ہیں۔
سب سے زیادہ پریشانی آئی سی سی کو ہے، جو اس سال ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کو ملتوی ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ آسٹریلیا میں آزادانہ آمد ورفت پر پابندی اگست تک ہونے کی صورت میں آئی سی سی کے پاس کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ عالمی کپ ملتوی کردے جس سے اسے اربوں ڈالرز کا نقصان ہو گا۔
احسان مانی کو خدشات لاحق ہیں کہ پاکستان کا رواں سال انگلیںڈ کا دورہ منسوخ ہو جائے گا جب کہ سری لنکا کے ساتھ سیریز بھی ممکن نہیں دکھائی دیتی۔
وہ اب بھی پرامید ہیں کہ پی ایس ایل کے بقیہ میچ اس سال ہوجائیں گے تاہم غیر ملکی کھلاڑی اب صرف دستیاب ہونے کی صورت میں ہی آسکیں گے اور اس کے لیے بھی تاریخ کی پیشگوئی ممکن نہیں۔
اس صورتحال کے سنگین اثرات آئندہ سال کی کرکٹ پر پڑیں گے جس کی تیاری اور بحالی کے لیے وقت بہت کم ہوگا۔ آئی سی سی کے پانچ سالہ پروگرام کے تحت اگلے دو سالوں میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کو پاکستان کے دورے کرنا ہیں، کیا وہ ہو پائیں گے؟
اس بات کا جواب دیتے ہوئے احسان مانی نے اپنا عزم دہرایا کہ اب پاکستان اپنی ساری کرکٹ مقامی گراؤنڈز میں ہی کھیلے گا جو ماضی میں متحدہ عرب امارات میں ہوتی رہی ہے ۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے شاید آنے والا وقت بہت مشکل ہو گا، ایک طرف کرکٹ معطل ہے تو دوسری طرف پچھلے معاہدوں کی رقوم کی وصولی بھی کھٹائی میں پڑی ہے۔ عالمی سطح پر کرونا وائرس کے باعث مالی خساروں نے میڈیا کو بھی بہت متاثر کیا ہے جس کا بالواسطہ اثر کرکٹ بورڈز پر پڑنے والا ہے۔
بے قاعدگیوں اور شاہ خرچیوں کے لیے مشہور پاکستان کرکٹ بورڈ کس طرح ان مالی مشکلات سے نمٹے گا؟ یہ تو کہنا ابھی مشکل ہے لیکن بورڈ سے منسلک ملازمین اور سینٹرل ایگریمنٹ کرنے والے کرکٹر ان خدشات کا شکار ہیں کہ ان کی تنخواہوں میں کٹوتی ہو جائےگی۔
کیا پاکستان کرکٹ بورڈ ان مشکل حالات میں کوئی مخصوص حکمت عملی اختیار کرے گا اور بچت کی راہ اختیار کرے گا یا ماضی کی طرح شاہ خرچیاں کرتے ہوئے پاکستان کے دوسرے اداروں کی طرح خود کو بے تحاشا مقروض کردے گا؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
لیکن کرکٹ کی معطلی سے اگر بھارت اور انگلینڈ جیسے مالی طور پر مستحکم بورڈ پریشان ہیں تو پاکستان کرکٹ بورڈ پر زیادہ تنقید مناسب نہیں۔ تاہم بورڈ کو ضرور سوچنا ہوگا کہ ان حالات میں اپنا وجود کس طرح قائم رکھنا ہے۔