پاکستانی ذرائع ابلاغ کے ادارے گذشتہ چند سالوں سے شدید معاشی بحران سے گزر رہے ہیں اور اب کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے بعد اس بحران میں مزید شدت آگئی ہے اور متعدد ذرائع ابلاغ کے اداروں نے بڑے پیمانے پر صحافیوں اور تکنیکی عملے کو نوکریوں سے فارغ کیا ہے۔
کئی اخبارات اور نجی ٹیلی ویژن چینلز نے اپنے سٹاف کی تنخواہوں میں کمی کی ہے جبکہ کئی اداروں میں تنخواہیں پہلے ہی کئی مہینوں کی تاخیر سے دی جارہی ہیں، لیکن بحران کے اس دور میں بھی سندھی زبان کے ایک نئے سیٹلائٹ ٹیلی ویژن چینل کا اجرا ہوا ہے۔
سندھی زبان کے ایک بڑے ذرائع ابلاغ کے گروپ 'کاوش' کے سابق سربراہ علی قاضی کی جانب سے 'ٹائم نیوز' کے نام سے شروع ہونے والے سیٹلائٹ ٹیلی ویژن چینل کی آزمائشی نشریات جمعرات سے شروع کی گئیں جو کیبل پر بھی دستیاب ہے۔
سندھی زبان کے دو ٹی وی چینلز 'کے ٹی این نیوز' اور 'کشش ٹی وی' اور تین اخبارات 'کاوش، کوشش اور شام' کاوش گروپ کے تحت کام کرتے ہیں۔ علی قاضی نے گذشتہ برس کاوش گروپ سے علیحدگی اختیار کرکے دس صفحات پر مشتمل 'پنھنجی اخبار' (اپنا اخبار) نامے رنگین اخبار کراچی سے شائع کیا تھا، جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ 'سندھی زبان کا پہلا مکمل ڈیجیٹل اخبار' ہے اور اب اخبار کے ایک سال مکمل ہونے پر انہوں نے سیٹلائٹ ٹیلی ویژن چینل کا اجرا کیا۔
اس نئے جاری ہونے والے سیٹلائٹ چینل کا ہیڈ آفس کراچی میں ہے جبکہ سندھ کے پانچ ڈویژنل ہیڈکواٹرز حیدرآباد، میرپور خاص، شہید بینظیر آباد (نواب شاہ)، لاڑکانہ اور سکھر کے علاوہ لاہور، کوئٹہ اور اسلام آباد میں بیورو آفس ہوں گے۔
دلچسپ بات یہ کہ سندھی زبان کا یہ سیٹلائٹ ٹیلی ویژن چینل ایسے وقت میں لانچ کیا گیا جب عالمی وبا کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن جاری ہے۔
'ٹائم نیوز' کے سربراہ علی قاضی نے لاک ڈاؤن کے دوران سیٹلائٹ ٹی وی چینل کے اجرا کو ایک چیلنج قرار دیتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ایسے دور میں ایک نئے سیٹلائٹ ٹی وی چینل کی تیاری کرنا اور اس کے لیے مطلوبہ سامان کی خریداری اور افرادی قوت کو یقینی بنانا بہت مشکل تھا مگر ہم نے آخر یہ کردیا۔'
انہوں نے کہا: 'اس دور میں ایک نئے چینل کی شروعات کرکے ہم نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور مستقبل میں مورخ جب تاریخ لکھے گا تو اسے لکھنا ہوگا کہ اس وقت جب نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھی کے ذرائع ابلاغ معاشی بحران کے باعث بڑے پیمانے پر ملازموں کو فارغ کرنے کے ساتھ ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کر رہے تھے اس وقت سندھی زبان میں ایک نئے سیٹلائٹ ٹیلی ویژن کا اجرا ہوا تھا۔'
جب ان سے پوچھا گیا کہ کرونا وبا جیسے عالمی بحران کے دور میں ایک نیا ٹیلی ویژن چینل کیسے چل پائے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا: 'ذرائع ابلاغ کی درست طریقے سے تربیت بحرانوں میں ممکن ہوتی ہے، جب ذرائع ابلاغ کو نئی چیزیں سیکھنے اور کرنے کا موقع ملتا ہے۔'
علی قاضی نے دعویٰ کیا کہ صرف ایک سال پہلے جاری ہونے والا ان کا اخبار 'پنھنجی اخبار' آج سندھی زبان کا سب سے زیادہ سرکولیشن رکھنے والا اخبار بن گیا ہے۔ 'جب ہم نے گذشتہ سال 'پنھنجی اخبار' کا اجرا کیا تب کرونا بحران تو نہیں تھا مگر معاشی بحران سخت تھا تو ہم سمجھتے ہیں کہ 'ٹائم نیوز ' بھی اپنی جگہ بنائے گا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشتو، پنجابی، بلوچی، سرائیکی، ہندکو اور شینا سمیت دیگر علاقائی زبانوں کے مقابلے میں سندھی زبان میں سب سے زیادہ اخبارات، ایف ایم ریڈیو اور ٹی وی چینلز ہیں۔ سندھ حکومت کے شعبہ تعلقات عامہ کے ریکارڈ کے مطابق سندھ سے جاری ہونے والے سندھی اخبارات نہ صرف کراچی بلکہ حیدرآباد، سکھر، نواب شاہ اور دیگر اضلاع سے بھی نکلتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق سندھی زبان میں 150 سے زائد اخبارات کے ڈیکلریشن جاری ہوچکے ہیں۔
ایسے بحران میں جب ایک سندھی زبان کے نئے سیٹلائٹ ٹیلی ویژن چینل کا آغاز ہوا ہے، مرکزی دھارے میں شامل اردو ذرائع بلاغ میں بڑے پیمانے پر صحافیوں اور دیگر عملے کو فارغ کرنے کا عمل جاری ہے۔
چند روز قبل پاکستان کے ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون نے حال ہی میں خریدا ہوا ٹی وی چینل 'آپ نیوز' بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پانچ سو سے زائد ملازمین کو فارغ کر دیا تھا۔
آپ نیوز کی انتظامیہ نے چینل بند کرنے کی وجہ لائسنس کی منتقلی میں تکنیکی وجوہات بتائی تھیں، تاہم ملازمین اسے محض ایک بہانہ گردانتے ہیں اور معاشی بحران کے باعث اشتہارات میں کمی کے باعث چینل کی آمدن کم ہونے کو بندش کی وجہ قرار دیا جارہا ہے۔
پاکستان میں کارکن صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سابق صدر پرویز شوکت نے حال ہی میں وزیراعظم عمران کو ایک خط لکھا ہے، جس میں انہوں نے میڈیا مالکان کے واجبات کی ادائیگی کو ملازمین کی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی سے منسلک کرنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے میڈیا ملازمین کو وفاقی حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے احساس پروگرام کا حصہ بنانے کی درخواست بھی کی۔