'میت کو غسل دینے کے بعد علم ہوا کہ مریض کی موت کرونا سے ہوئی تھی'

کسی بھی شخص کی موت کرونا سے ہوئی ہو یا کسی اور مرض سے ہم غسل دینے یا جنارہ اٹھانے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹتے، مگر لوگوں کو بھی ہمارا خیال کرنا چاہیے اور خاص طور سے ایسے معاملات میں ہم سے اتنی بڑی بات نہیں چھپانی چاہیے: ایدھی کارکن فاروق بلوچ

اسی دن غسل  دینے کے بعد فاروق جناح ہسپتال بھی گئے جہاں سے انہوں نے کرونا سے ہلاک ہونے والے ایک شخص کو مردہ خانے منتقل کیا۔ واپسی پر انہیں معلوم ہوا کہ کچھ دیر پہلے وہ جس مردے کو غسل دے کر آئے ہیں وہ کرونا کا مریض تھا۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

 

48 سالہ فاروق بلوچ  پچھلے 20  سال سے فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن سے منسلک ہیں۔ انہوں نے اب تک 200 سے زائد کرونا (کورونا) وائرس کے مریضوں کو ہسپتال منتقل کیا ہے۔ اس وبا سے ہلاک ہونے والے 20 سے زائد افراد کے جنازے اٹھائے ہیں اور ان میں سے تقریباً پانچ کو غسل بھی دیا ہے۔

 فاروق کے اب تک تین سے زائد کرونا وائرس کے ٹیسٹ ہو چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے تعجب  ہوتا ہے جب لوگ کرونا سے ہلاک ہونے والے افراد کے جنازے اٹھانے سے منع کردیتے ہیں؟ آخر یہ بھی انسان ہی ہیں۔‘

فاروق کے مطابق وہ روزانہ کی بنیاد پر کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کے کم از کم تین جنازے اٹھاتے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی کے فرائض میں میت کو ہسپتال سے مردہ خانے منتقل کرنا اور غسل کے بعد مردہ خانے سے قبرستان پہنچانا ہے۔ بعض اوقات وہ مردے کو غسل دینے میں بھی اپنی ٹیم کی مدد کر دیتے ہیں۔

تین روز قبل ایدھی فاؤنڈیشن کے آٹھ افراد کا ہنگامی حالات میں کرونا کا ٹیسٹ کروایا گیا، جن میں فاروق بلوچ بھی شامل تھے۔

انہوں نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ کچھ روز قبل کراچی کی النور سوسائٹی میں واقع ایدھی مردہ خانے میں ایک میت غسل کے لیے آئی۔ اس شخص کے گھر والوں کی جانب سے جمع کروائی گئی دستاویزات میں کچھ کاغذات کم تھے۔ مذکورہ شخص کے اہل خانہ نے غسل کے بعد ڈیتھ سرٹیفیکیٹ جمع کروانے کا وعدہ کیا اور یقین دلایا کہ ان کی ہلاکت کرونا وائرس سے نہیں ہوئی۔

اس روز فاروق معمول کے مطابق ڈیوٹی پر پہنچے اور غسل دینے والی ٹیم میں ایک فرد کے کم ہونے کے باعث انہوں نے مذکورہ میت کو غسل دینے کا فیصلہ کیا۔

فاروق کا کہنا تھا : ’میں اس وقت تک یہ نہیں جانتا تھا کہ اس شخص کی ہلاکت کرونا وائرس سے ہوئی ہے، اس لیے غسل بھی کسی عام مردے کی طرح کیا گیا۔ ہم کرونا سے ہلاک ہونے والے افراد کو غسل دینے کے لیے ایک خاص حفاظتی کِٹ پہنتے ہیں جو فیصل ایدھی صاحب نے ہمیں دی ہیں، لیکن لاعلمی کے باعث اس غسل کے دوران ہم میں نے حفاظتی کِٹ نہیں پہنی۔‘

اسی دن غسل دینے کے بعد فاروق جناح ہسپتال بھی گئے جہاں سے انہوں نے کرونا سے ہلاک ہونے والے ایک شخص کو مردہ خانے منتقل کیا۔ واپسی پر انہیں معلوم ہوا کہ کچھ دیر پہلے وہ جس مردے کو غسل دے کر آئے ہیں وہ کرونا کا مریض تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فاروق نے بتایا کہ ’میں اس وقت ایمبولینس میں تھا اور مردہ خانے کی طرف جا رہا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہ جاننے کے بعد مجھے کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوا لیکن سب سے پہلا خیال اپنے گھر والوں کا آیا۔ میں انہیں کسی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ وہ ویسے ہی میرے کام کی وجہ سے اتنے فکر مند رہتے ہیں، پوچھتے رہتے ہیں کہ میں گھر کب آؤں گا؟ میں احتیاط کر رہا ہوں یا نہیں؟ سچ بتاؤں! تو میں اس وقت بس یہ سوچ رہا تھا کہ انہیں کیا کہوں گا؟‘

مردہ خانے پہنچنے کے بعد فاروق نے ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے بیٹے سعد ایدھی کو تمام معاملے سے آگاہ کیا، جس کے بعد سعد ایدھی کی ہدایت پر فاروق اور غسل دینے والے باقی تمام افراد نے انڈس ہسپتال سے اپنا کرونا وائرس کا ٹیسٹ کروایا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم یہاں لوگوں کی مدد کرنے کے لیے ہیں۔ کسی بھی شخص کی موت کرونا سے ہوئی ہو یا کسی اور مرض سے ہم غسل دینے یا جنارہ اٹھانے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹتے، مگر لوگوں کو بھی ہمارا خیال کرنا چاہیے، ہمارا ساتھ دینا چاہیے اور خاص طور سے ایسے معاملات میں ہم سے اتنی بڑی بات نہیں چھپانی چاہیے۔‘

ہم نے فاروق سے پوچھا کہ وہ عام طور پر ہسپتال سے کرونا کے مریضوں کی لاش اٹھانے اور مردہ خانے سے قبرستان منتقل کرنے میں کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ ’ہسپتال میں کرونا کے مریض کی میت اٹھانے سے قبل ہم نیلے رنگ کی حفاظتی کٹ سے اپنے پورے جسم کو ڈھانپتے ہیں۔ پھر سٹریچر پر ایک پلاسٹک کی لمبی سی شیٹ بچھائی جاتی ہے۔ میت کو پلاسٹک شیٹ اور ایک صاف کپڑے میں لپیٹا جاتا ہے۔ ایمبولینس میں مردہ خانے پہنچنے کے بعد دوسری ٹیم سفید رنگ کی حفاظتی کٹ پہن کر مردے کو غسل دیتی ہے۔ ہم غسل کے بعد بھی مردے کو کفن میں لپیٹنے سے پہلے پلاسٹک کی شیٹ میں لپیٹتے ہیں، جس کے بعد باڈی کو تابوت میں منتقل کیا جاتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جنازے کو اہلِ خانہ کے بتائے ہوئے قبرستان لے جایا جاتا ہے۔ اس دوران خاندان والوں کو آخری رسومات ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ قبر کی کھدائی تک خاندان والے دوسری گاڑی میں بیٹھ کر صرف دور سے سارا منظر دیکھتے ہیں۔ آخری رسومات میں اگر انہیں کوئی دعا پڑھنی ہو تو وہ بھی ہمیں بتا دیتے ہیں۔ 20 سال ہوگئے ایدھی میں کام کرتے ہوئے لیکن آج تک ایسے جنازے نہیں دیکھے۔‘

دو روز قبل فاروق بلوچ اور ان کے ساتھیوں کے ٹیسٹ کا نتیجہ منفی آیا۔ فاروق کے گھر والے خوش تھے کہ انہیں کرونا وائرس نہیں ہوا لیکن فکرمند بھی کیوں کہ وہ ایک غلطی انہیں بہت مہنگی پڑ سکتی تھی۔ فاروق ایک بار پھر اپنی ڈیوٹی پر واپس آچکے ہیں اور جمعرات کو ہی انہوں نے کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن سے کرونا کے نو مریضوں کو انڈس ہسپتال منتقل کیا ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان