’ایش‘ کی یاد میں

مجھے خوب یاد ہے کہ حبیب یونیورسٹی کے ممکنہ مقاصد اور سمت پر حبیب خاندان کو میں نے جو اولین پریزنٹیشن دی تو علی حبیب نے مجھے کیا خوب مختصر اور جامع مشورہ دیا۔

علی سلیمان حبیب کا انتقال 18 اپریل 2020 کو کراچی میں ہوا۔ وہ ہاؤس آف حبیب اور پاکستان بْنس کونسل کے چیرمین ہونے کے علاوہ پاکستان کی اہم سیاسی اور کاروباری شخصیت تھے۔ وہ کراچی کی حبیب یونیورسٹی کے بانیوں میں سے بھی تھے۔ 

’ہم اللہ کے ہیں اور اللہ ہی کو لوٹنے والے ہیں۔

ہم تیری قضا سے راضی ہیں، اور تیرے امر کو تسلیم کرتے ہیں، اور تیرے سِوا کوئی معبود نہیں، اے فریادیوں کی فریاد سننے والے۔‘

یہ مختصر دعا حضرت امام حسین (ع) سے منسوب ہے۔ روایت ہے کہ امام (ع) نے یہ دعا عاشور کے روز، دن ڈھلنے پر پڑی تھی۔

ہمارے قاعد اور ہماری یونیورسٹی کی بنیادی متحرک قوتوں میں سے ایک بڑی قوت، علی سلیمان حبیب کے، جنہیں ہم پیار سے 'ایش (ASH)' کے نام سے پکارتے تھے، اِس دارِ فانی سے گزرنے، اور اس گزرنے کے صدمے کے سوگ میں، امام (ع) کا یہ الوہی کلام مناسب معلوم ہوتا ہے۔

مجھے خوب یاد ہے کہ حبیب یونیورسٹی کے ممکنہ مقاصد اور سمت پر حبیب خاندان کو میں نے جو اولین پریزنٹیشن دیئے، ان کے دوران علی حبیب نے مجھے کیا خوب مختصر اور جامع مشورہ دیا۔

کراچی میں ایک نئی یونیورسٹی کے قیام پر میرا مقدمہ جب اپنے اختتام کو پہنچا، تو علی نے تین الفاظ کہے: ڈوُ اِٹ ویَل! (کام بہترین کرنا!)۔

اس کے ساتھ انہوں نے ہمیں عندیہ دے دیا کہ ہم اپنی کوششوں میں، دنیا کے اعلیٰ تعلیمی نظام میں اعلیٰ ترین اداروں کو کسوٹی بنایں۔ اس ہدایت سے حوصلہ پا کر ہی ہم آج یہاں تک پہنچے کے حبیب یونیورسٹی کو دنیا کی عظیم ترین یونیورسٹیوں میں سے چند کے ساتھ تعلقات کا شرف حاصل ہے۔

یہی ایش کا خاصہ تھا۔ لفظاً اور استعاراً وه بلند ترین منازل تک پہنچنے کو مستقل کوشاں رہتے تھے۔ انہیں پہاڑوں سے عشق تھا اور اکثر شمالی پاکستان میں، کره ارض کی بلند ترین چوٹیوں پر پائے جاتے تھے۔ وه کِلِمَنجارو پہاڑ پر چڑھے، اور چند ہی ماه قبل جاپان میں فوُجی پہاڑ پر بھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کاروبار اور انسان دوستانہ کارِخیر میں ان کی منازل اور بھی بلند تھیں۔ انہوں نے نہ تو صرف یہ یقینی بنایا کہ حبیب یونیورسٹی ایک اعلیٰ یونیورسٹی بننے کی جانب اپنے عظم اور سمت پر قائم رہے، بلکہ طلبا کی مالی امداد کے لحاظ سے بھی دنیا کی سخی ترین نجی یونیورسٹیوں کی صفِ اول میں کھڑی رہے۔

کاروبار کی طرف انہوں نے دنیا کی اعلیٰ ترین عالمی کمپنیوں میں سے ایک، ٹویوٹا موٹرز کے ساتھ ایک وسیع مشترکہ وینچر کو تشکیل دیا اور چنانچہ حبیبز ٹویوٹا کی مشہور کرولا گاڑیوں کے سب سے بڑے کارخانہ دار بن گئے۔

علی نے کاروباری برادری کے لیے اپنے طریقہ کار پر غور کرنے اور قومی اقتصادی مفاد میں مل کے کام کرنے کے لیے بڑے بڑے پلیٹ فارمز بنائے۔ کچھ ہی ہفتوں قبل انہوں نے ہزاروں صفحات پر مشتمل فرسوده پالسیوں پر نظرِ ثانی کر کے، حکومتِ پاکستان کو اپنی درآمدات کئی گنا بڑھانے کے سلسلے میں مشاوراتی کام سرانجام دیا۔

جس کسی کو بھی ایش کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے، وه جانتا ہے کہ انہوں نے ان حکومتی دستاویزات اور قوائد کا ہر آخری سطر تک یقیناً باغور مطالعہ کیا ہوگا۔ چاہے ہم انہیں یونیورسٹی کی بورڈ میٹنگز کے سلسلے میں کتنی ہی مفصل اور پیچیده دستاویز بھیجتے، وه ہمیشہ میٹنگ میں آخری صفحہ تک مطالعہ کر کے تیار پہنچتے۔

ذاتی طور پر علی میرے استاد، رہنما، شائِق سامع، باس اور بھائی، سب ہی کچھ ساتھ ساتھ تھے۔ ان کے اس طرح بالکل غیر متوقع انداز سے چلے جانے سے میں اپنے آپ کو بے سمت اور کھویا ہوا سا محسوس کر رہا ہوں۔ اور المیہ یہ ہے کہ ایسی کسی بھی صورت حال میں وه ہی میرے بہترین مددگار اور رہنما ہوتے۔

ہم آپ کو کبھی نہ بھول پائینگے، ایش۔

اس پار ملاقات ہوگی، انشا اللہ۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس