پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بیشتر مرکزی و مقامی نیوز چینلوں میں 12 سال تک بطور کیمرہ مین کام کرنے والے خرم سندھو نے دال ٹکی اور نان کی ریڑھی لگالی۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ کئی نیوز چینلوں میں کام کرنے کے بعد محنت سے سینیئر کیمرہ مین کے عہدے تک پہنچے، لیکن اب مالی بحران کا بہانہ بنا کر چینل مالکان نے سینکڑوں ملازمین کی طرح انہیں بھی نوکری سے فارغ کر دیا۔
خرم کا کہنا ہے کہ انہیں تین ماہ قبل 'آپ نیوز' سے نکالا گیا جبکہ تنخواہ کی مد میں ان کے تین ماہ کے بقایاجات بھی ادا نہیں کیے گئے۔
خرم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب وہ نوکری ہونے کے باوجود کئی ماہ کی تنگدستی کے دوران نوکری سے فارغ کیے گئے تو ان پر قرضہ چڑھا ہوا تھا۔
انہوں نے تین ماہ تک نوکری تلاش کی لیکن جب کوئی بات نہ بنی تو پھر دوستوں سے ادھار پکڑ کر یہ کام شروع کر دیا۔
اس سوال کے جواب میں کہ انہوں نے یہ کام کہاں سے سیکھا؟ خرم نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا: 'ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ جب سر پر پڑی تو خود ہی دال ٹکی تیار کی اور جب پہلے ہی دن کھانے والوں نے تعریف کی تو حوصلہ ملا۔'
بقول خرم پہلے دن انہیں خوف تھا کہ ان کی تیار کردہ نان ٹکی اگر لوگوں نے خرید کر نہ کھائی تو وہ ادھار کے پیسوں سے لاگت کیسے پوری کریں گے
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: 'شکر ہے کہ پہلے ہی دن خرچ کی گئے پیسے پورے ہوگئے اور اب آہستہ آہستہ آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
خرم کے مطابق انہوں نے جن صحافتی لیڈروں کے جھنڈے اٹھائے اور دفاتر میں مخالفت کے باوجود انہیں ہر الیکشن میں کامیاب کرانے کی جدوجہد کی، انہوں نے فون کرکے کبھی حال بھی نہیں پوچھا۔
گفتگو کے دوران خرم نے سوال کیا کہ جو چینل مالکان مالی بحران کا رونا رو کر کارکنوں کو بے روزگار کر رہے ہیں، ان میں سے کتنے مالکان نے ریڑھیاں لگائی ہیں؟
ساتھ ہی انہوں نے پریس کلبوں اور گھروں میں بیٹھے بے روزگار میڈیا کارکنوں کو مشورہ دیا کہ حکومت، مالکان یا صحافی تنظیموں کےلیڈر کسی کے لیے کچھ نہیں کریں گے، وہ اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے باہر نکلیں اور شرم و بھرم چھوڑ کر رزق حلال کی کوشش کریں، اسی طرح ان کی بے روزگاری ختم ہوگی۔
واضح رہے کہ پاکستان میں گذشتہ ایک سال میں مختلف میڈیا اداروں میں ڈاؤن سائزنگ کے نام پر سینکڑوں ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کردیا گیا ہے۔
کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز مالی بدحالی کے نام پر بند ہوچکے ہیں اور جو چل رہے ہیں، وہاں کٹوتیاں کرکے تنخواہیں کم کر دی گئی ہیں جبکہ پیٹرول اور موبائل فون الاؤنسز کی سہولت بھی واپس لے لی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کئی کئی ماہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی بھی معمول بنتا جا رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے اشتہارات کی پالیسی تبدیل کرکے کارکنوں کی تنخواہوں کی ادائیگی باقاعدہ بنانے کے اعلانات بھی کیے جا چکے ہیں لیکن ابھی تک عملی طور پر بہتری کا سفر شروع نہیں ہوسکا۔
وزیر اعظم عمران خان اور اطلاعات ونشریات کے شعبے سے متعلقہ عہدیداروں کی جانب سے بھی میڈیا کارکنوں کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی پوری نہیں ہوسکی۔