کونج ایک سائیبیریائی پرندہ ہے، جو سردیوں میں اپنی افزائش کے لیے وہاں کے یخ بستہ ماحول سے ہجرت کرکے پاکستان آتا ہے۔
کونج کا شکار عام طور پر مارچ اور اپریل کے مہینے میں ان علاقوں میں کیا جاتا ہے، جہاں پانی کا کثرت سے بہاؤ ہو یعنی دریا یا درہ وغیرہ۔
خیبر پختونخوا کے انتہائی پسماندہ ضلع ٹانک کے علاقے گومل میں کونج کے شکار کے لیے کیمپ لگایا گیا ہے، جہاں لوگ پکنک منانے کے لیے بھی آتے ہیں۔
کونج کے شکار کے لیے کیمپ لگانے والے بیت اللہ نے بتایا کہ اس سال وہ اب تک 12 کے قریب کونجوں کا شکار کرچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: 'شکار کی گئی کونجوں کو ہم چار پانچ دوستوں یعنی پارٹنرز میں تقسیم کردیتے ہیں، تاہم جو دوست یہ پرندے سارا سال پالتے ہیں اور انہیں تربیت دیتے ہیں، ان کو زیادہ حصہ دیا جاتا ہے۔'
بیت اللہ کے مطابق: 'اس سیزن میں پورے علاقے میں شکاریوں نے کیمپ لگائے ہوئے ہوتے ہیں۔ درابن، کلاچی، لونڑی، گومل اور ژوب تک شکاری ایک دوسرے سے شکار کے سلسلے میں رابطے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک کیمپ کے اوپر سے اگر کونج کا غول گزرتا ہے تو کیمپ والے آگے والوں کو ٹیلی فون کال کرکے آگاہ کردیتے ہیں کہ شکار ہم سے نکل گیا، اب آپ لوگ تیار ہوجائیں۔ پھر اس کیمپ والے اپنی تربیت یافتہ کونج اور ٹیپ ریکارڈنگ تیار کر لیتے ہیں تاکہ کونج کے آنے والے غول کو ان آوازوں سے پھنساکر شکار کیا جاسکے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا: 'ہم یہاں عام طور پر ایک ماہ کے لیے کیمپ لگاتے ہیں۔ ایک کیمپ پر 20 ہزار سے لے کر لاکھوں روپے بھی خرچ ہوجاتے ہیں۔ ہمارا کیمپ چھوٹا سا ہے۔ گھر بھی قریب ہے، لیکن پھر بھی اس پر 40 سے 50 ہزار روپے کا خرچہ آجاتا ہے۔'
بیت اللہ کے مطابق: 'کونج کا شکار بنیادی طورپر دو قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ بعض اس شکار کو منافع اور کاروبار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جبکہ ہم بس شغل اور شوق کے لیے کرتے ہیں۔'
کونج کا شکار عام طور پر رات کو کیا جاتا ہے اور شکاری جال میں پھنسانے کے لیے اپنے ساتھ ایم پی تھری اور تربیت یافتہ کونج ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ بیت اللہ کے مطابق: 'رات کو ہم کونج کی آواز سننے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ جب ان کی اواز سن لیتے ہیں تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارا شکار آنے والا ہے۔'
ساتھ ہی انہوں نے بتایا: 'بزرگ یہ کہتے ہیں کہ یہ پرندہ اس سیزن میں یہاں سے افغانستان سے ہوتا ہوا سائیبیریا جاتا ہے۔ نصیب نصیب کی بات ہوتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ شکار کی گئی کونجوں کے ڈیڑھ لاکھ روپے تک مل جاتے ہیں اور کبھی یہ قیمت 50 ہزار اور تین ہزار تک بھی ہوتی ہے۔'
کونج کو پکڑنے کے لیے لمبے لمبے کھمبوں کے ساتھ جال تیار کیے جاتے ہیں۔ جیسے ہی ہوا میں اڑنے والی کونجیں زمین پر موجود تربیت یافتہ کونج یا ریکارڈر میں موجود کونج کی آواز سنتے ہیں تو نیچے آتے ہیں اور جال میں پھنس جاتے ہیں۔
بیت اللہ نے بتایا کہ یہاں کے لوگ خاص کر نوجوان اس کیمپنگ اور شکار کے دلدادہ ہیں اور یہاں پکنک منانے بھی آتے ہیں۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے جاوید روبابی اس علاقے میں ایک زبردست فنکار کے طور پر جانے جاتے ہیں اور اکثر نوجوان اپنی پکنک یا تقریبات میں جاوید روبابی کو بُک کرکے ساتھ لے جاتے ہیں۔دریا کنارے خاموش فضا میں کونج کی آواز اور رباب کی ترنگ شکار اور پکنک کے مزے کو دوبالا کردیتے ہیں۔
دوست جاوید روبابی کے دل لبھانے والے روایتی گانے اور رباب کو رات دیر تک انجوائے کرتے رہے اور رات کی خاموش تاریکی میں قہوے کا دور چلتا رہتا ہے۔