آج یکم مئی ہے۔ یعنی یوم مزدور۔ لیکن آج کا یوم مزدور ماضی کی نسبت یکسر مختلف ہے۔ آج کوئی جلسہ ہو گا، نہ جلوس۔ اور نہ ہی کوئی ریلی منعقد کی جائے گی۔ مزدور سڑکوں پر نکلیں گے اور نہ محنت کشوں کا استحصال نامنظور اور شکاگو کے شہید زندہ باد جیسے نعرے فضاوں میں گونج سکیں گے۔
آج پاکستان اور دنیا بھر کے مزدور بےروزگاری کے خوف کے ساتھ یکم مئی منائیں گے۔ نہیں معلوم گذشتہ دو مہینوں کے دوران نوکریوں اور روزگار سے ہاتھ دھونے والے مزدوروں کی تعداد میں آج کتنا اضافہ ہو گا۔ اور کتنے مزدور کام کاج کھو دیں گے۔
یوم مزدور روایتی جوش و خروش سے نہ منائے جانے اور محنت کشوں کی بیروزگاری کی وجہ مہلک کرونا (کورونا) وائرس کی وبا ہے۔ جس نے تقریباً ساری دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔
جان لیوا کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک میں معاشرتی دوری کو یقینی بنانے کے لیے لاک ڈاؤن نافذ ہیں۔ اور بہت بڑی آبادی گھروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
یہی صورت حال پاکستان میں بھی ہے۔ جہاں گذشتہ تقریباً چھ ہفتوں سے لاک ڈاون نافذ ہے۔
اگرچہ پاکستان میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کے لیے بہت زیادہ سختی نہیں برتی جا رہی۔ تاہم اکثر کارخانے، فیکٹریاں، دفاتر، دکانیں اور روزگار کے دوسرے مراکز بند پڑے ہیں۔
کرونا وائرس کی وبا اور اس کے نتیجے میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کے باعث پاکستان میں بھی یوم مزدور قدرے خاموشی سے منایا جائے گا۔ بعض مزدور یونینز سڑکوں پر نکلنے کی ضرور کوشش کر سکتی ہیں۔ تاہم ان اجتماعات میں روایتی رش اور مزدوروں کی بڑی تعداد کی شرکت کے امکانات بہت کم ہیں۔
پاکستان لیبر فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری حاجی سعید آرائیں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتاتا: ’ہم اپنے دفتر کے اندر ہی تقریب کا اہتمام کر رہے ہیں۔ جس میں صرف چند لوگ شامل ہوں گے۔ اس مرتبہ ہمارا یوم مئی محدود ہو گا۔‘
کون کون مزدور ہے؟
مزدور کی تعریف میں ہاتھ سے کام کرنے والے کارکنوں کو شمار کیا جاتا ہے۔ ان میں ہنر مند اور غیر مند دونوں شامل ہوتے ہیں۔
تاہم علم معاشیات میں دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کام کرنے والوں کو بھی مزدور قرار دیا جاتا ہے۔ یعنی دفاتر میں کام کرنے والے لوگ وغیرہ۔
سعید آرائیں مزدور کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں: ’ہر وہ شخص جو اپنے ہاتھوں سے کام کرے۔ اور اس کے پاس کسی کو نوکری پر رکھنے یا نکالنے کا اختیار نہ ہو مزدور ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یوں چھوٹے بڑے کارخانوں، دکانوں، کھیتوں، دفاتر، سرکاری یا غیر سرکاری اداروں، تعمیرات کے شعبہ وغیرہ میں کام کرنے والے لوگ مزدور کے زمرے میں آتے ہیں۔
مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق پاکستان میں مزدوروں کی تعداد سات کروڑ سے زیادہ ہے۔ جن میں بہت بڑی تعداد خواتین کی بھی شامل ہے۔
مزدور اور کرونا وائرس
کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ملک میں معاشی اور کاروباری سرگرمیاں تقریباً بند ہیں۔ جس کے باعث مزدوروں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہو گئی ہے۔
اپریل کے شروع میں وفاقی وزارت منصوبہ بندی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً سوا کروڑ لوگوں کے بے روزگار ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ سائنسز (پی آئی ڈی ای) کی ایک سٹڈی کے مطابق: پاکستان میں دوسرے صوبوں اور شہروں میں جا کر کام کرنے والے تقریباً 40 لاکھ مزدوروں کے بےروزگار ہونے کا امکان ہے۔
سٹڈی میں کہا گیا ہے کہ لاک ڈاون کی وجہ سے چھوٹے بڑے کارخانے بند پڑے ہیں۔ اور ان کی انتظامیہ کارکنوں کو نوکریوں سے فارغ کر سکتی ہے۔
لیبر فورس سروے (2017۔2018) کے مطابق پاکستان میں تقریباً ساڑھے اسی لاکھ ایسے مزدور ہیں جو دوسرے صوبوں اور شہروں میں جا کر کام کرتے ہیں۔ ان میں تعمیراتی اور زرعی شعبوں میں کام کرنے والے، فیکٹری مزدور اور کاریگر، گھریلوں ملازم وغیرہ شامل ہیں۔
اسی طرح بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد بھی کرونا وائرس کی وبا کے باعث بے روزگار ہو چکی ہے۔
دبئی میں پاکستانی کونصل خانے کے اکٹھے کردہ اعداد و شمار کے مطابق متحدہ عرب امارات میں کم از کم دس ہزار پاکستانی کارکنوں کی نوکریاں جانے کا خطرہ ہے۔
کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے کے علاوہ دیہاڑی دار مزدور بھی لاک ڈاؤن سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستان لیبر فیڈریشن کے صدر آصف وردک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد حکومتی کھاتے میں رجسٹرڈ نہیں ہے۔ اس لیے ان کے اعداد و شمار ہی موجود نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے غریبوں کو دی جانے والی امداد اچھا اقدام ہے۔ لیکن غیر رجسٹرڈ مزدور اس سے مستفید نہیں ہو پا رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے مزدوروں میں بڑی تعداد دیہاڑی دار مزدوروں کے علاوہ غیر ہنرمندوں کی ہے جو ایک سے زیادہ شعبوں میں کام کرتے رہتے ہیں۔
تحریک انصاف حکومت احساس پروگرام کے تحت لاکھوں خاندانوں کو بارہ ہزار روپے امداد کے طور پر دینا شروع کیا ہے۔
حاجی سعید آرائیں کا کہنا تھا کہ ملک کی مجموعی معاشی حالت اور کرونا وائرس کی وبا نے مزدور طبقے کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔
’ہمارے مزدور کے بہت برے حالات ہیں۔ مزدور طبقے کی ایک بہت بڑی تعداد کو تین وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہو رہا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کنٹریکٹ لیبر کے رجحان نے مزدوروں کی حالت بہت زیادہ خراب کی ہے۔
کنٹریکٹ پر کام کرنے والے مزدوروں کو کارخانہ دار کرونا وائرس کی وبا جیسی قدرتی آفات کی صورت حال میں کوئی مراعات نہیں دیتے۔ بلکہ انہیں اگلے دن کام پر نہ آنے کا کہہ دیا جاتا ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) پنجاب کی سیکریٹری جنرل عابدہ چوہدری نے کہا: ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج یکم مئی کے موقع پر مزدور اور دیہاڑی دار اپنی معاش اور صحت کی مراعات کھو رہے ہیں۔ اور کام کرنے والے پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹ (پی پی ایز) کا مطالبہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔
وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کووڈ۔19 کی وبا کے دوران ہزاروں مزدور نوکریوں سے فارغ کر دئیے گئے ہیں۔ اور اب ان مزدوروں کو بیماری اور غربت کے درمیان انتخاب کا کہا جا رہا ہے۔
فرنٹ کی جنرل سکریٹری عالیہ بخش نے حکومت کو وبائی امراض کے دوران بنیادی آمدنی، خوراک کی حفاظت اور عوامی رہائش کی فراہمی کو یقینی بنانے کا مشورہ دیا۔
صدر اے ڈبلیو پی پنجاب عمار راشد نے کہا کہ کرونا وائرس کے بحران میں دو امکانات موجود ہیں۔ یا تو سرمایہ دار مزدور کے استحصال میں اضافہ کرے گا۔ اور یا ہمارے معاشرتی، سیاسی اور معاشی نظام میں بنیادی تبدیلیاں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ آج کے فیصلوں اور اقدامات سے طے ہوگا کہ ہم ان دو راستوں میں سے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔