آج دو موضوعات پر آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تو کابینہ میں نئے وزرا کی شمولیت اور دوسرا اٹھارویں ترمیم پر بحث۔
پچھلے دو سال میں موجودہ حکومت ایک گھومتے ہوئے دروازے کی طرح ہے۔ اس دوران بہت بڑے بڑے سورما، جو اپنے شعبے کے ماہر سمجھے جاتے تھے، حکومت کا حصہ بنے لیکن پھر چند ہی مہینوں میں مٹی کے ڈھیر ثابت ہوئے۔
اسد عمر کو عمران خان نے وزارت خزانہ کے ارسطو کے طور پر پیش کیا مگر وہ فیصلے کرنے میں اتنی تاخیر کرتے رہے کہ روپیہ 125 سے بڑھ کر 155 پر جا پہنچا۔ بالآخر انہیں یہ وزارت چھوڑنی پڑی۔
خیبر پختونخوا کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس ناصر درانی کو پولیس اصلاحات میں پی ایچ ڈی حاصل ہے مگر وہ چند ماہ بھی ساتھ نہ نبھا سکے۔ شبر زیدی صاحب کو ایف بی آر کا گُرو مانا جاتا ہے اور ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ ٹیکس کیسے وصول کرنا ہے۔ وہ بھی چند دنوں میں بیمار ہو کر چھوڑ گئے۔
پنجاب کے چیف سیکریٹری اور پولیس آئی جی تو ایسا لگتا ہے چھٹیوں پر پنجاب جاتے ہیں اور چند مہینوں کے آرام کے بعد واپس وفاق کو لوٹا دیے جاتے ہیں۔ غرض اتنے چہرے اور عہدے بدلے ہیں کہ یاد رکھنا بھی مشکل ہے۔
وزیر اطلاعات بھی کئی آئے اور اب جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ اور شبلی فراز کے نام نکلے ہیں۔ شبلی فراز بھی سینیٹ میں حکومتی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ہیں جبکہ جنرل باجوہ ایک کامیاب ڈی جی آئی ایس پی آر رہ چکے ہیں لیکن آج کل سی پیک کے سربراہ بھی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا ان کے پاس اتنا فارغ وقت تھا کہ ایک اور عہدہ لینا پڑا؟ یا ملک میں قابل لوگوں کی کمی ہے کہ ایک ہی آدمی کو کئی کئی عہدے رکھنے پڑتے ہیں؟
پاکستان میں قابل لوگوں کی کوئی کمی نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ نظام کچھ اس طرح کا ہے کہ قابل آدمی کا چلنا ذرا مشکل ہے۔ کچھ خاص قسم کے لوگوں کی اس نظام کو ضرورت ہے جو خوش رکھنے کا ہنر جانتے ہوں۔ قابل اور ہنر مند آدمی خود دار ہوتا ہے اور اگر اسے آزادی سے کام نہ کرنے دیا جائے تو وہ عہدے پر رہنے کی بجائے چھوڑنا زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔
قابل آدمی ایک ہی کام کرنے کی کوشش کرتا ہے ناکہ ایک ہی وقت میں کئی مختلف قسم کے عہدوں پر کام کرنے کی کوشش کرے۔ اگر کوئی شخص ایک ہی وقت میں کئی عہدے لے تو یہ واضع نشانی ہے کہ یہ آدمی حرص کا شکار ہے۔ قابل آدمی کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ کیا کام وہ کر سکتا ہے اور کیا نہیں کرسکتا۔
مگر ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ہر فن مولا ہیں۔ یہ ایک ہی وقت میں کئی قسم کے کام کر سکتے ہیں اور عہدوں سے انکار ان کے بس کی بات نہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ کارکردگی صفر ہے۔
دوسری اہم بات اٹھارویں ترمیم پر قومی بحث ہے۔ چند سال پہلے میں نے کئی دفعہ اس بات کی نشاندہی کی کہ اٹھارویں ترمیم میں کچھ ایسی کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے مقاصد حاصل نہ کر پائی۔ مگر ایسا نہیں کہ اس میں اچھائیاں نہیں ہیں۔ میں ہمیشہ سے نہ صرف صوبوں کو اختیار دینے کا حامی رہا ہوں بلکہ اس بات پر زور دیتا رہا ہوں کہ بلدیاتی نظام کو فعال بنانا ضروری ہے۔ چند سال پہلے جب میں نے یہ بات کہی تو کسی نے توجہ نہیں دی لیکن آج دوسرے لوگوں کو بھی یہ خرابیاں نظر آ رہی ہیں۔
اب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اٹھارویں ترمیم ہی نہیں بلکہ پورا نظام ہی چلنے کے قابل نہیں۔ میں نے اس سلسلے میں سیاسی مذاکرات کے لیے پارٹی کے مرکزی رہنماؤں کو پچھلے ہفتے نجی پیغامات بھیجے جس کے بعد ایک دم چند سیاست دانوں کی طرف سے بیانات آنے لگے کہ کسی اہم آئینی تبدیلیوں کے لیے الیکشن کے ذریعے آئین ساز اسمبلی قائم کرنی ہوگی۔ یہ ایک مستند دلیل نہیں ہے۔
پہلی بات یہ کہ کیا 1973 کا آئین کسی آئین ساز اسمبلی نے بنایا تھا۔ چلیں اس کو چھوڑیں، کیا 18 ترمیم کسی آئین ساز اسمبلی نے کی تھی؟ ہمیں اس ملک کے نظام کو درست کرنے کے لیے کسی پیچیدہ مراحل سے گزرنے کی ضرورت نہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو مذاکراتی میز پر بیٹھ کر ایک نیا نظام ترتیب دینا ہوگا۔
موجودہ آئین اور ہمارے 40 سال کے تجربات رہنمائی فراہم کریں گے۔ اس نئے نظام کو عوام کے سامنے رکھا جائے جو اس کی توثیق کریں۔ ایسی مذاکراتی میز جس پر ہم موجود نہ ہوں قابل قبول نہیں ہوگی۔
موجودہ نظام کی ناکامی کی بڑی ذمہ داری موجودہ سیاسی پارٹیوں پر آتی ہے اور نئے نظام کی تعمیر کی ذمہ داری صرف ان پر ڈالنا ایک قومی غلطی ہوگی۔ میں امید کرتا ہوں ہم دائروں کے سفر سے نکلیں گے اور اس قوم کو ایک نئی منزل کی طرف لے کر جائیں گے۔