پاکستان میں تحریک انصاف حکومت کے اہم وزرا کی جانب سے اٹھارویں آئینی ترمیم پر دوبارہ غور کرنے سے متعلق بیانات نے ملک میں صوبائی خود مختاری اور وفاقی نظام کے حوالے سے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما اٹھارویں آئینی ترمیم پر نظر ثانی کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں جبکہ حزب اختلاف کی جماعتیں ایسے کسی اقدام کو ملک میں نئے سیاسی اور آئینی بحران کا پیش خیمہ قرار دے رہی ہیں۔
ماہرین کے خیال میں کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے تناظر میں ملک کے مقتدر حلقوں میں وفاق کے صوبوں پر کنٹرول نہ ہونے کے احساس کو جنم دیا ہے۔
جبکہ اٹھارویں ترمیم کے باعث وفاقی حکومت کی آمدن میں کمی سے پیدا ہونے والی مشکلات کو بھی اس اہم آئینی ترمیم پر نظر ثانی کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
اٹھارویں ترمیم ہے کیا؟
پاکستان میں برطانوی طرز کے پارلیمانی نظام کو رائج کرنے وعدہ کیا گیا تھا، لیکن ایسا ہوا نہیں ہوا۔ گورنر جنرل کے اختیارات منتخب وزیر اعظم سے زیادہ کر دیے گئے اور اس وقت کے صوبہ سرحد میں منتخب حکومت غیر آئینی اور غیر جمہوری طریقے سے ہٹا دی گئی۔
1973 کے آئین میں موجود اس سقم کو دور کرنے کے لیے 2009 میں اس وقت کے صدر آصف علی نے ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی کو اٹھارویں ترمیم کا ڈرافٹ تیار کرنے کا ٹاسک دیا، جو 18 ماہ کی محنت کے بعد مکمل کر لیا گیا۔
قومی اسمبلی نے 9 اپریل 2010 کو اٹھارویں ترمیم منظور کی جبکہ سینیٹ سے 15 اپریل کو منظوری کا عمل مکمل ہوا اور صدر مملکت نے 19 تاریخ کو اٹھارویں ترمیم کے بل پر دستخط کرکے اسے آئین کا حصہ بنا دیا۔
اٹھارویں ترمیم کی منظوری سے 1973 کے آئین میں کئی تبدیلیاں کی گئیں۔ جن میں صدر سے اسمبلیاں توڑنے کا اختیار واپس لینا، صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا کا نام دینا، سابق آمر جنرل ضیا الحق کا نام آئین سے نکالنا، تیسری مرتبہ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ بننے کی پابندی ختم کرنا، ایک درجن سے زیادہ وفاقی وزارتوں کے اختیارات صوبوں کو منتقل کرنا، وفاقی کابینہ میں وزرا کی تعداد گیارہ کرنا، وزیر اعظم کو مشترکہ مفادات کونسل کا سربراہ مقرر کرنا، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے طریقے متعارف کرنا، آئین کو ہولڈ اِن ایبی اینس رکھنے کو سنگین غداری قرار دینا اور مشترکہ فہرست (کنکرنٹ لسٹ) کا خاتمہ وغیرہ شامل تھے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کو حاصل ہونے والے محاصل کا بڑا حصہ (58 فیصد) صوبوں کو منتقل ہو جاتا ہے جبکہ باقی ماندہ 42 فیصد میں سے اسلام آباد نے دفاعی بجٹ، وفاقی حکومت کے انتظامی اخراجات اور اندرونی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔
وفاقی حکومت کی مشکلات
میڈیا رپورٹس کے مطابق تحریک انصاف حکومت نے اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر دوبارہ غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے پہلا بیان وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور ترقی اسد عمر کی طرف سے آیا۔
انہوں نے ایک ٹی وی شو میں کہا: 'اٹھارویں ترمیم میں کچھ خامیاں دیکھنے میں آئی ہیں، جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔' تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے خلاف نہیں ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 'اٹھارویں ترمیم پر تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے، تاہم بعض شعبوں میں اس ترمیم کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے اور کارکردگی خراب ہوئی ہے، جن پر بات کرنا وقت کی ضرورت ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحریک انصاف کے موجودہ دور حکومت کے دوران اس سے قبل بھی اٹھارویں ترمیم سے اٹھنے والے مسائل کا ذکر ہوتا رہا ہے، لیکن یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے وہ کون سے عوامل ہیں جو وفاق کے لیے مسائل کا باعث بن رہے ہیں۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافی اور محقق عرفان احمد بیگ سمجھتے ہیں کہ 2005 کے زلزلے اور اب کرونا وائرس کی وبا کے دوران وفاق نے خود کو مالی دباؤ کا شکار پایا اور شاید اسی وجہ سے مرکز کی سطح پر یہ سوچ ابھر رہی ہے کہ محاصل میں وفاق کا حصہ بڑھایا جانا ضروری ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد میں مقیم سینئیر صحافی محمد ضیاالدین نے وفاق کے مالی مسائل کی تھیوری سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے اسلام آباد میں پائی جانے والی پریشانی قابل فہم ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اس ترمیم کے باعث وفاقی محاصل میں صوبوں کا حصہ زیادہ ہو گیا ہے جبکہ وفاق کے اخراجات زیادہ اور آمدن کم ہو گئے ہیں۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پہلے دن سے ہی اٹھارویں آئینی ترمیم کے خلاف اور اسے ختم کرنے کے درپے تھی۔
معروف صحافی سہیل وڑائچ نے ایک مضمون میں لکھا تھا: 'اسٹیبلشمنٹ اٹھارویں ترمیم کو فیڈریشن اور صوبوں کے مابین عدم توازن کی ایک بڑی وجہ گردانتی ہے اور اسے ختم کرنے کے حق میں ہے۔'
اٹھارویں ترمیم کیوں ضروری؟
حزب اختلاف کی جماعتوں کے علاوہ آزاد تجزیہ کار اور ماہرین بھی اٹھارویں ترمیم کے ذریعے 1973 کے آئین میں کی گئی تبدیلیوں کو برقرار رکھنے کی حمایت کرتے ہیں۔
اٹھارویں ترمیم کا مسودہ تیار کرنے والی ٹیم میں شامل سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کے مطابق: 'اس وقت پارلیمان میں فاٹا کے ایم این ایز سمیت 14 مختلف گروہ تھے اور ان میں سے کسی نے بھی ترمیم کی مخالفت نہیں کی۔'
ان کا کہنا تھا: اگر جمہوری نظام کو ایک کشتی تصور کرلیا جائے تو اٹھارویں ترمیم کو اس کا لنگر کہا جا سکتا ہے، جو کشتی کو سمندر کی ظالم لہروں میں استقامت بخشتا ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ مشترکہ ہندوستان کی تقسیم کی ایک وجہ یہی تھی کہ انگریز سرکار ریاستوں کو خود مختاری دینے میں ناکام ہو گئی تھی اور صوبائی خود مختاری کے وعدے پر ہی پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
افراسیاب خٹک نے صوبوں میں صلاحیت کی کمی سے متعلق اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب تک اکائیوں کا معاملات سے واسطہ نہیں پڑے گا وہ نہیں سیکھ سکیں گے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی آمریت کی خاطر ملک کو جمہوریت کی پٹڑی سے اتارنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
دوسری جانب صحافی شیراز پراچہ کہتے ہیں کہ مضبوط مرکز اور کمزور اکائیوں کی سوچ کے باعث ہی 71 کا سانحہ پیش آیا تھا۔
ان کے خیال میں اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے پاکستان میں قوم پرست قوتیں کمزور ہوئیں جس کا فائدہ ایک مضبوط وفاق کی صورت میں سامنے آیا۔ 'قوم پرست ہمیشہ سے صوبوں کے حقوق کی سیاست کرتے رہے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد ان کے ووٹ بینک میں کمی واقع ہوئی، جس کی وجہ ان کے بیانیے کا خاتمہ ہے۔'
تاہم محمد ضیا الدین کہتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے وفاق کے لیے پیدا ہونے والے مسائل دراصل اپنی ہی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔ اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے بعد وفاق کو اپنے اخراجات کم کرنے چاہیے تھے، جوکہ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح صوبوں کی سطح پر بھی اس ترمیم کی روح کو سمجھ کرعمل نہیں کیا گیا۔
حزب اختلاف کیا کہتی ہے؟
حکومتی وزرا اور رہنماؤں کے اٹھارویں ترمیم پر ںطرثانی سے متعلق بیانات سامنے آتے ہی حزب اختلاف کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔
تمام اپوزیشن جماعتوں نے صوبائی خود مختاری اور صوبوں اور وفاق کے درمیان وسائل کی تقسیم کے فارمولے میں تبدیلی کی سختی سے مخالفت کی، تاہم حزب اختلاف کے بیشتر رہنماؤں نے حکومت کی طرف سے رابطوں کی اطلاعات کی تردید کی۔
ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری نے سب سے پہلے ایک انٹرویو میں اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے اٹھارویں ترمیم کو 'پاکستانی وفاق کی قوت کا ضامن' قرار دیا۔
پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی اس سلسلے میں ردعمل دیتے ہوئے حکومتی تجویز کی مخالفت کی اور جماعت کے مرکزی سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے ایک بیان میں کہا کہ 'اس سلسلے میں کسی قسم کی تبدیلی ان کی جماعت کے لیے ناقابل قبول ہو گی۔ یہ قومی اتفاق رائے سے لائی گئی ترمیم ہے، جس نے پاکستان کا صوبائی خودمختاری کا دیرینہ مسئلہ حل کیا۔'
دوسری جانب جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ایسی بحرانی صورت حال میں وفاقی حکومت کا اٹھارویں ترمیم کا مسئلہ اٹھانا نہ صرف مضحکہ خیز بلکہ خطرناک ہے۔
ایک ویڈیو پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو مزید تجربہ گاہ نہ بنایا جائے۔ ایسے مسائل کو چھیڑنے سے قومی یکجہتی سبوتاژ ہو گی۔