اسلام آباد میں ایک نجی ادارہ کے ملازم عباس حیدر گذشتہ دس برس سے ایک چھوٹی موٹر کار کے مالک ہیں۔ جسے وہ سی این جی (کمپریسڈ نیچرل گیس) پر چلاتے رہے ہیں۔
حال ہی میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے بعد انہوں نے اپنی گاڑی میں سی این جی کا بطور ایندھن استعمال ترک کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا: اب تو پٹرول سی این جی سے سستا مل رہا ہے۔ اور اس سے گاڑی کا انجن بھی بہتر کام کرتا ہے۔ تو کیوں نہ پٹرول ہی استعمال کیا جائے۔
عباس کی طرح پاکستان میں لاکھوں موٹر کار مالکان سی این جی کا استعمال ترک کر تے ہوئے پٹرول کو ترجیح دے رہے ہیں۔
گاڑیوں میں گیس کا بطور ایندھن استعمال کم ہونے کی وجہ سے پرچون سی این جی فروخت کرنے والے سی این جی سٹیشنز کا کاروبار متاثر ہوا ہے۔
آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے چئیرمین غیاث عبداللہ پراچہ سی این جی کے استعمال میں کمی کی وجہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کو قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: پاکستان میں سی این جی متعارف کروانےکا مقصد یہی تھا کہ جو لوگ پٹرول کے استعمال کے متحمل نہیں ہو سکتے وہ اپنی گاڑیاں گیس پر چلائیں گے۔
اب جب پٹرول سی این جی سے سستا دستیاب ہے تو خدشہ ہے کہ گاڑی مالکان پٹرول کو ترجیح دیں گے۔
کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔
پاکستان میں بھی وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے یکم مئی سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا تھا۔ حکومت نے چند ماہ قبل بھی پٹرولیم مصنوعات کی نرخوں میں کی تھی۔
نئے نرخوں کے مطابق ملک میں پٹرول کی قیمت 96.58 روپے فی لٹر سے کم کر کے 81.58 کر دی گئی ہے۔
پاکستان میں سی این جی کی قیمتوں کے حوالے سے دو ریجن ہیں۔ پنجاب میں قدرتی گیس نہیں پائی جاتی۔ اس لیے یہاں سی این جی درآمد شدہ لیکویفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) سے بنائی جاتی ہے۔
سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں قدرتی گیس کی پیداوار موجود ہونے کے باعث سی این جی اسی گیس سے بنائی جاتی ہے۔
اس لیے پاکستان کے چاروں صوبوں میں سی این جی کی قیمتوں میں فرق دیکھنے میں آتا ہے۔
اس وقت پنجاب میں سی این جی کی قیمت 72 روپے فی لیٹر ہے۔ جبکہ سندھ میں 123 روپے فی کلو اور خیبر پختون خوا میں 138 روپے فی کلو ہے۔
سی این جی اور کنزیومر بنکنگ کا امتزاج
پاکستان میں سی این جی کا بطور ایندھن استعمال اسی کی دہائی میں شروع ہو گیا تھا۔ سال 1991 میں باقاعدہ طور پر سی این جی سیکٹر کا پاکستان میں اجرا کیا گیا۔ اور سی این جی سٹیشنز کھولے گئے۔
تاہم سی این جی بہت کم گاڑیوں میں بطور ایندھن استعمال ہو رہی تھی۔جس کی وجہ گاڑیوں کی زیادہ قیمتیں تھیں۔ اور گاڑی کو ایک لگژری تصور کیا جاتا تھا۔
2000 کی دہائی میں پاکستان کے کمرشل بنکوں نے حکومتی پالیسی کے تحت پہلے سے موجود مائیکرو فنانس سکیموں کا دائرہ کار بڑھایا۔ اور ان سکیموں کے ذریعے گھریلو استعمال کی اشیا بھی آسان اقساط پر دینا شروع کر دیں۔
کنزیومر بنکنگ کے نام سے جانی جانے والی یہ سکیمیں کم اور درمیانی آمدنی والے افراد کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوئیں۔ جو گھریلوں استعمال کی چیزیں مثلا ٹی وی، ریفریجیریٹر، ائر کنڈیشنر، جنریٹرز وغیرہ حاصل کر سکتے تھے۔
انہی سکیموں کے تحت پاکستان کے کئی کمرشل بنکوں نے آسان اقساط پر گاڑیاں بھی فراہم کرنا شروع کر دیں۔ ان گاڑیوں میں موٹر کاروں کے علاوہ تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی دوسرے کئی قسم کی گاڑیاں بھی شامل تھیں۔
یوں درمیانی آمدن رکھنے والے پاکستانی خاندان بھی مختصر کاغذی کاروائی کے بعد اپنی پسند کی گاڑی آسان اقساط پر حاصل کرنے کے قابل ہو گئے۔
ملک میں سی این جی کی موجودگی میں گاڑیوں کا آسان اقساط پر حصول ممکن ہونے سے درمیانے طبقے کے پاکستانیوں کو ذاتی موٹر کار رکھنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آنے لگا۔
اسلام آباد میں پاکستان کی ایک بڑی کار ساز کمپنی کے ڈیلر محمد عامر وہ دن یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: قسطوں پر گاڑیوں کی دستیابی نے عام آدمی کو بھی اس قابل بنا دیا کہ وہ موٹر کار رکھ سکے۔ اور ہم نے لاکھوں کی تعداد میں گاڑیاں فروخت کیں۔
پاکستان آٹوموٹیو مینوفکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے اعداد و شمار کے مطابق 2000 کی دہائی کے اوائل میں ملک میں ہر سال ایک لاکھ سے کم گاڑیاں بنائی جا رہی تھیں۔ تاہم 2003 کے بعد ان کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اور 2007 میں یہ تعداد تقریبا دو لاکھ اور 2017 میں تقریبا تین لاکھ ہو گئی۔
انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ سے سی این جی کی مانگ بھی بڑھتی چلی گئی۔
مجھے یاد ہے ہم ایک دن میں چار چار پانچ پانچ گاڑیوں میں سی این جی کٹس نصب کیا کرتے تھے۔
شہریوں کے لیے ذاتی گاڑی کا حصول ممکن بنانے کے لیے اس وقت کی وفاقی حکومت نے ملک میں سی این جی کی پرچون فروخت کے لیے سینکڑوں سی این جی سٹیشنزکے لائسنس جاری کیے۔
صرف سال 2007 میں پاکستان میں موجود سی این جی سٹیشنز کی کل تعداد کے پچاس فیصد سٹیشنز قائم کیے گئے۔
آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے مطابق سال 2009 کے دوران پاکستان میں سی این جی بطور ایندھن استعمال کرنے والی گاڑیوں کی تعداد سینتیس لاکھ تھی۔ جو ایک حکومتی پالیسی کے باعث 2009 تک کم ہو کر 25 لاکھ رہ گئی تھی۔
غیاث پراچہ کا کہنا تھا کہ 2000 کی دہائی کے اواخر میں پاکستان دنیا میں گاڑیوں میں سی این جی بطور ایندھن استعمال کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔ جبکہ یہاں پرچون سی این جی فروخت کرنے والے سٹیشنز بھی دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ تھے۔
آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 3300 سی این جی سٹیشنز ہیں۔
سی این جی سیکٹر ختم ہو رہا ہے؟
کرونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاون کے باعث سڑکوں پر گاڑیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جس کے باعث موٹر کاروں اور دوسری گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ایندھن کی فروخت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان مین لاک ڈاون کے دو مہینوں کے دوران پٹرول اور سی این جی کی فروخت 75 فیصد کمی ہوئی ہے۔
پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے باعث سی این جی کی اہمیت اور استعمال میں مزید کمی کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غیاث پراچہ کہتے ہیں: ہمیں خدشہ ہے کہ لاک ڈاون کی پابندیاں ختم ہونے کے بعد زیادہ لوگ پٹرول کی طرٖف جا سکتے ہیں۔ اور ایسی صورت میں سی این جی سیکٹر کو بہت بڑا دھچکہ لگ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے ان کی ایسوسی ایشن نے حکومت سے سی این جی سیکٹر کو بچانے کے لیے مراعاتی پیکج کا مطالبہ کیا ہے۔
غیاث پراچہ نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان میں چار لاکھ افراد کا روزگار سی این جی سٹیشنز اور سی این جی سے چلنے والی گاڑیوں سے وابستہ ہے۔
پاکستان میں کم از کم پانچ لاکھ گاڑیاں (بسیں اور پک اپس وغیرہ) ایسی ہیں جو صرف سی این جی پر ہی چل سکتی ہیں۔ یہ اگر رک گئیں تو ان سے وابستہ لوگ بھوکے مریں گے۔
انہوں نے حکومت سے سی این جی پر سے غیر ضروری ٹیکس اور ڈیوٹیاں ہٹانے کے علاوہ گیس کا ٹیرف کم کرنے اور سبسڈی دوسرے شعبوں پر منتقل کرنے کے مطالبات کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: سی این جی غریب عوام کے لیے سہولت اور ماحول دوست شعبہ ہے۔ اسے ہر صورت بچانا ہو گا اور اس کے لیے اس کی قیمت کو پٹرول کے نرخ سے کم رکھنا پڑے گا۔