اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے پاس تقریباً دو ہزارملازمین کی اپریل کی تنخواہیں قرض لے کر ادا کرنے کے بعد مئی اور جون کی تنخواہوں کے لیے فنڈز نہیں۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے وفاق کی جانب سے سالانہ کم بجٹ ملنے کے بعد اپنے فنڈز میں کٹوتی کرکے یونیورسٹیوں کو خود کفیل بننے کی ہدایت کر رکھی ہے۔
دوسری جانب، اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے بعض گروپس الزام عائد کر رہے ہیں کہ پچھلے وائس چانسلرز نے ضرورت سے زیادہ ملازمین بھرتی کرکے اس ادارے کے خزانے پر اضافی بوجھ ڈالا ہے۔
اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے مالی بحران پر بات کرتے ہوئے موجودہ ایکٹنگ وائس چانسلر ڈاکٹر نوشاد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صرف پچھلے تین سال میں یونیورسٹی کی تنخواہیں ساڑھےتین کروڑ روپے سے بڑھ کر 10 کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہیں۔
’یہ سب ضرورت سے زیادہ عملہ رکھنے کی وجہ سے ہوا، لیکن صرف عملے کا زیادہ ہونا ہی اس کالج کا مسئلہ نہیں۔ یہاں کرپشن بھی ہوتی رہی ہے، جس کے خلاف میں اٹھا ہوں۔‘
اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے مسائل
جب سے پروفیسر ڈاکٹر نوشاد نے عہدہ سنبھالا ہے تب سے اس ادارے میں احتجاج کا میدان گرم ہے۔ اور جس طرح ایسے معاملات میں ہوتا ہے، ایک گروہ وائس چانسلر کے حق میں اور دوسرا ان کے خلاف ہے۔
مخالفین کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر نوشاد میں یونیورسٹی چلانے کے لیے درکار قابلیت کی کمی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹر خان غیر ضروری طور پر ملازمین کی تعداد پر تنقید کر رہے ہیں جب کہ اصل مسئلہ فنڈز کی کمی ہے۔ مخالفین کے مطابق ملازمین کی تعداد ضرورت کے مطابق ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نقاد ڈاکٹر نوشاد پر یونیورسٹی کے وسائل کا استحصال، ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر اساتذہ کو ایڈیشنل عہدوں سے ہٹا کر ان کو تنخواہیں نہ دینےکا الزام لگاتے رہے ہیں۔
اس تمام مسئلے کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے تمام گروپس بشمول ڈاکٹر نوشاد متفق ہیں کہ اصل مسئلہ فنڈز نہ ہونے کا ہے، جس کے سبب خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ جب کرونا لاک ڈاؤن کے بعد تعلیمی ادارے کھل جائیں گے تو سارا ملبہ طالب علموں پر پڑے گا۔
حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ اسلامیہ کالج اثاثوں کے لحاظ سے ایک مال دار ادارہ ہے، جس کے صوابی، چارسدہ، پشاور اور ایبٹ آباد میں بہت ساری زمینیں اور بازار ہیں۔
تاہم ان جگہوں پر مختلف گروپس قابض ہیں۔ صرف ایبٹ آباد میں اسلامیہ کالج کے بانی صاحبزادہ عبدالقیوم کا تقریباً 25 کنال پر محیط ایک قیمتی بنگلہ ہے جس میں آج کل محکمہ اوقاف کا دفتر ہے۔
اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے ایک لیکچرر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس ادارے کی مارکیٹوں کو بدمعاشوں کے قبضے سے چھڑانا صوبائی حکومت کا کام ہے۔ ’وائس چانسلر کا کام حکومت کی توجہ اس مسئلے کی طرف دلانا ہے جب کہ قبضہ چھڑانا حکومت کا ہے۔
'اگر حکومت یہ بھی نہیں کر سکتی تو پھر ادارے کے لیے فنڈز کا انتظام کرے کیونکہ یہ مسئلہ بنیادی طور پر وفاق سے اس وقت شروع ہوا۔ جب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بجٹ میں 158 ارب روپے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم وفاق سے انہیں صرف 77 ارب روپے ملے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں گریڈ فور سے لے کر گریڈ 16 تک ایک پوسٹ پر 18، 20 افراد تعینات کیے جاتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گورنر بحیثیت چانسلر تمام تعیناتیوں سے باخبر ہوتے ہیں۔ ان کی خاموشی نے ادارے کو اس حال پر پہنچا دیا ہے کہ اب شاید یہ ادارہ بھی پرائیویٹائزیشن کی طرف چلا جائے۔
اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے ایک طالب علم اسد شاہ نواز خان کا کہنا ہے کہ بہت جلد اس یونیورسٹی کی فیس بھرنا ایک غریب طالب علم کی استطاعت سے باہر ہو جائے گا۔
اسی یونیورسٹی کے ایک لیکچرر ریاض حسین کے مطابق اگر سرکاری یونیورسٹی میں بھی بھاری فیس لاگو ہوئیں تو پھر نجی اور سرکاری ادارے میں فرق کیا رہ جائے گا؟
’طالب علموں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق غریب خاندانوں سے ہے۔ ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہونا چاہیے کہ یہاں جو سٹوڈنٹ آتے ہیں وہ اس صوبے کی ’کریم‘ ہیں۔ ‘
وائس چانسلر ڈاکٹر نوشاد کا موقف
فنڈز کی کمی کے حوالے سے ڈاکٹر نوشاد کا کہنا ہے کہ انہوں نے 29اپریل کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پاس جا کر ان سے فنڈزکے لیے درخواست کی ہے۔
’ہم نے ایچ ای سی کو آگاہ کیا کہ اپریل کے لیے ہم نے قرض لے کر تمام عملے کو بشمول ڈیلی ویجرز کی تنخواہیں ادا کر دی ہیں لیکن مئی اور جون کے لیے ہمارا خزانہ خالی پڑا ہے۔ جواب میں ایچ ای سی نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ایک طرف جہاں یونیورسٹی کو مالی مسائل کا سامنا ہے وہیں اس تعلیمی ادارے میں بہت زیادہ کرپشن بھی ہوتی رہی ہے۔
’میرے پاس اس کرپشن کے تمام ثبوت ہیں۔ صرف ہاسٹل فار بوائز اینڈ گرلز کے پراجیکٹ میں کروڑوں روپے کا غبن ہوا۔
'پی سی ون اور زمینی حقائق میں بہت فرق ہے۔ اس تمام کرپشن کے نتیجے میں یہ ادارہ تباہی کی طرف جا رہا تھا۔ کچھ اساتذہ سالوں سے اضافی چارج سنبھالے ہوئے تھے، حالانکہ ایڈیشنل چارج کی مدت صرف تین مہینے ہوتی ہے۔ جب میں نے انہیں ہٹایا تو میرے خلاف احتجاج شروع ہو گیا۔‘
ڈاکٹر نوشاد کا کہنا ہے کہ اب ایک مضبوط آڈیٹر کو لا کر ڈیپارٹمنٹس کا آڈٹ کیا جائے گا۔ ’اس کے علاوہ گورنرکی ایک تحقیقاتی ٹیم بھی تمام معاملات کا جائزہ لے رہی ہے جو بہت جلد اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
'گورنر کی انسپکشن ٹیم کو جو دستاویزی ثبوت چاہیں وہ ہم انہیں دے رہے ہیں۔ یہ ٹیم یونیورسٹی کے اندر مالی بے ضابطگیاں، آڈٹ پیراز، پلیجرزم اور ایڈمنسٹریشن کے ساتھ تعاون نہ کرنے والے اساتذہ کی معلومات حاصل کرے گی۔ ‘
پروفیسر نوشاد سے جب پوچھا گیا کہ وہ ادارے کو خود کفیل کیسے بنائیں گے اور کیا وہ اسلامیہ کالج کے مارکیٹوں اور زمینوں کو قبضہ گروپوں سے چھڑا کر انہیں کالج و یونیورسٹی کے استعمال میں لانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ گورنر کے پی کو اس بارے میں علم ہے اور انہوں نے ایک دو میٹنگز میں خود کہا ہے کہ ان زمینوں اور مارکیٹوں سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔
اسلامیہ کالج کی تاریخ
اسلامیہ کالج پشاور صرف خیبر پختونخوا میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ایک معتبر درس گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا سنگ بنیاد نواب سر صاحب زادہ عبد القیوم اور سر جارج روس کیپل نے 1913 میں رکھا تھا۔
صاحب زادہ عبدالقیوم کا تعلق ضلع صوابی کے ٹوپی گاؤں سے تھا۔ ان کے نواسے بریگیڈیئر (ر) محمد ایاز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ صاحب زادہ عبدالقیوم کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ انگریز سرکار نے اسلامیہ کالج بنانے کی منظوری دی۔
’ان کی دلی خواہش تھی کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے طرز کا ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس سے پورے خیبرپختونخوا خصوصاً قبائلی اضلاع کے نوجوان مستفید ہوں۔
'بابا جی صوبہ سرحد کے پہلے وزیر اعلیٰ اور ضلع خیبر (اس وقت کی خیبر ایجنسی) کے پولیٹیکل ایجنٹ کے علاوہ کئی اہم نشستوں پر تعینات رہے۔
'انہوں نے اپنی جائیداد کا تین چوتھائی حصہ اسلامیہ کالج کو دیا، جس میں ان کے ایبٹ آباد میں بہت بڑی اراضی پر پھیلا ہوا بنگلہ بھی شامل ہے۔‘
ایاز خان نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ کالج کی شاندار پرانی عمارت کے ساتھ نئی عمارتیں اس طرح بنائی جا رہی ہیں کہ پرانی عمارت کی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح اپنی زندگی میں تین مرتبہ صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) آئے اور ہر بار انہوں نے اسلامیہ کالج میں قیام کیا۔
حسب روایت اسلامیہ کالج پشاور میں ہمیشہ پورے صوبے سے قابل اور ذہین طلبہ کو ہی داخلہ دیا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کالج نے بہت بڑے نام پیدا کیے۔
اسلامیہ کالج کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس کی تصویر 100 روپے کے پرانے نوٹ اور موجودہ ہزار روپے کے نوٹ پر بھی چھاپی گئی۔